تحریر وتحقیق: پائندخان خروٹی
فلسفہ اور منطق پر متعدد کتابیں، مکالمے، مباحثے اور مقالے پڑھنے اور خود درجنوں آرٹیکلز لکھنے کے بعد بھی وجود (بی انگ) اور عدم (نھتنگ نیس )کے پیچیدہ موضوع نے مجھے ہونے اور نہ ہونے کے درمیان اُلجھا کر رکھ دیا۔ کاز اینڈ ایفیکٹ کے نظام کو آئیڈیلسٹ اور میٹریلیسٹ کے ” تسلیم شدہ اختتامیہ ” سے آگے نہ بڑھا سکا۔ وجود اور عدم کے درمیان موجود (ایگسسٹنس) کو متفقہ نقطہ بناتے وقت مادہ سے خارج اور مادہ میں داخل ہونے والی اشیاء کا قوت محرکہ معلوم کرنے میں مشکل پیش آئی کیونکہ ذات کے بارے میں درست معلومات حاصل کرنے کیلئے اس کی صفات تک پہنچا مگر مناسب اطمینان نہ ملنے کی وجہ سے واپس ذات کی تہہ تک پہنچنے پر مجبور ہوا۔
کُل کو سمجھنے کیلئے جُزیات کے مطالعہ کو لازمی گردانا جبکہ جُزیات کی مشترک صفات کی بنیاد پر تعمیر ہونے والی کلیات کا درست ادراک مناسب لگا۔ بہرحال یہ بات یقینی ہے کہ سائنسی نظریہ کی درست تفہیم نہ رکھنے کی وجہ سے بڑے بڑے فلاسفرز اور دانشور اپنے سینٹر سے ڈی سینٹر ہو سکتے ہیں. لہٰذا علت اور معلول کی حقانیت کا مقدمہ ہی اس کے نتیجے کی صداقت سے مشروط ہے۔
کاز اینڈ ایفیکٹ کے سلسلے کو مسلسل جاری یا ختم کرنے کیلئے فلاسفر ڈیوڈ ہیوم نے کہا کہ ” ہم کیوں اسی جگہ علت و معلول کا سلسلہ ختم کرتے ہیں۔ اگر رکنا ہی ہے تو کیوں نہ ہم کائنات یا دنیا پر ہی علی سلسلہ کا اختتام تسلیم کریں جیسے ہم کسی حد تک جانتے ہیں اور جس کا ہمیں کچھ تجربہ بھی ہے۔” (1)۔
وجود اور عدم وجود کے تناظر میں کلاسیکی فزکس کے ساتھ ساتھ کوانٹم فزکس کو کلیدی حیثیت حاصل ہو رہی ہے. کائنات کی تخلیق اسکے موجودہ ڈھانچے اور مسلسل ہونے والی تبدیلیوں کو جاننے اور جانچنے کیلئے انسانی علم اب روایتی فزکس سے آگے بڑھ کر ایٹم کے چھوٹے سے چھوٹے ذرہ کے عمل کی اہمیت اور کارکردگی سے واقفیت ہونے تک پہنچ گیا ہے۔ جدید علم الطبیعیات کے مطابق ایٹمی ذرات (الیکٹران، پروٹان، نیوٹران) سے بھی چھوٹے ذرات کوارک پارٹیکلز اور ان پر اثرانداز ہونے والی چار مختلف بنیادی قوتیں کائنات کے معاملات میں روبہ عمل ہیں۔
اس طرح ان تمام چھوٹے بڑے عوامل کا بغور جائزہ لیے بغیر کائنات کے امور کو سمجھنا اور خاص طور پر وجود اور عدم کا معمہ حل کرنا ممکن نہیں ہے۔ سائنس کا کمال یہ ہے کہ وہ اپنی علمی اور عقلی بنیادیں رکھنے کے باوجود بھی سائنسی حقائق و معلومات کو حتمی نہیں قرار دیتی۔ سائنس اور سائنسدانوں کے ہاں امکان، تنقید، تلاش اور جستجو کا دریچہ ہمیشہ کُھلا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ جدید سائنسی قوانین پر بھی حتمی ہونے کا اسٹمپ نہیں لگایا جاتا اور سائنس کا یہی وصف اسے کلچر اینڈ ریلیجن سے ممتاز رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر انسان عرصہ دراز تک جاندار اور بےجان چیزوں کو الگ الگ سمجھتا اور بیان کرتا رہا لیکن جدید سائنٹفک ریسرچ کے مطابق بےجان اشیاء میں بھی قوت حیات موجود ہے۔
جديد سائنس کے مطابق وائرس میں بیک وقت جاندار اور بےجان دونوں کی کیفیات موجود رہتی ہیں۔ کل تک لوگوں کو اس بات پر یقین تھا کہ جو جانور انڈے دیتے ہیں وہ اپنے بچوں کو دودھ نہیں پلاتے جبکہ آج کی دنیا میں یہ معلوم ہوا ہے کہ انڈے دینے والے ایسے متعدد ممیلیا جانور اور پرندے ہیں جو انڈے دیتے ہیں مگر باقاعدہ اپنے بچوں کو دودھ بھی پلاتے ہیں۔ اس طرح پانی میں رہنے والے جانوروں کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ خشکی پر بھی رہ سکتے ہیں جبکہ ایسے متعدد جانور بھی ہیں جو خشکی پر رہتے ہیں لیکن اڑنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔
مشاہدہ میں یہ بھی آیا ہے کہ ایسے پودے بھی ہیں جو حشرات کو کھاتے ہیں۔ یہ بات یقین کے ساتھ کی جا سکتی ہے کہ سائنسدان مسقبل قریب میں جانوروں اور پرندوں کی زبان کو سمجھنے یا اُن کی مخصوص حرکات سے وقوع پذیر ہونے والی آفات کا پیشگی اندازہ لگانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ان مثالوں کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اب تک ہم صرف دریافت شدہ علوم و معلومات پر انحصار کرتے ہیں جبکہ پل پل بدلتی دنیا میں ہماری معلومات ابھی تک بہت محدود ہیں اور بہت سی معلومات تحقیق اور جستجو کے نتیجے میں ابھی تک سامنے آنا باقی ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ جو دریافت شدہ سائنسی حقائق ہیں انھیں بھی قطعی تصور کرنا قطعی غیرسائنسی رویہ ہے۔گویا ضرورت ہی تمام انسانی سرگرمیوں کا بنیادی جوہر ہے۔اس ضمن میں ول ڈیورانٹ کہتا ہے کہ ” ہم جانتے ہیں کہ ہماری ضروریات ہمارے دلائل کو وضع کرتی ہیں، دلائل ضروریات کو نہیں۔ “(2)۔
انسانی ارتقاء اور ترقی سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ علم اور ہنر تمام بنی نوع انسان کا مشترکہ اثاثہ ہے اور ارتقاء اور ترقی کے سفر میں ہر گزشتہ مرحلہ کی بنیاد پر ایک جدید مرحلہ قائم ہو جاتا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ عالمی وباء کوووڈ 19 نے نئی تعمیر کی بجائے تیسری دنیا کے ممالک بالخصوص مسلم اور ہندو معاشرے میں حال اور ماضی کے تمام مرحلوں کی بنیادیں ہلا دی۔ مسلمان اور ہندو کے تسلیم شدہ علم ایک تحقیق طلب مفروضہ ثابت ہوا۔ ہمارے تمام آزمودہ نسخے بےنتیجہ نکلے۔ مقدس مقامات کے رکھوالے کچھ عرصے کیلئے نظروں سے اُوجھل ہوگئے۔ بظاہر ایک نظر نہ آنے والے کروناوائرس کے سامنے دنیا بھر میں نافذالعمل نظام اور رجعتی قوتیں کتنے بےبس اور بےنقاب ہو چکے ہیں۔ اپنی گوشہ تنہائی اختیار کرنے اور مقدس مقامات کو بند رکھنے کی کسی منطق پر عوام کو قائل نہ کر سکے۔
اب بھی وقت ہے کہ ہم رجعت اور جنونیت کی چکر سے نکلیں اور صدیوں سے دائروں کے سفر میں مبتلا رہنے کی بجائے عقلی اور سائنسی ترقی کی راہ پر اپنے قدم آگے بڑھائیں۔ بدقسمتی سے تعلیم اور صحت کے شعبوں کی طرح سائنس اور فلسفہ میں بھی ” ہمارا سامنا زمان ومکان کے تخیلاتی، صوفیانہ اور موضوعی نقطہ نظر سے ہے جیسے ریاضی کے نمونے میں ڈھال لیا گیا ہے اور غلطی سے حقیقی شئے خیال کر لیا گیا۔” (3)۔
کائنات میں تمام چیزوں کی بنیاد مادہ ہے اور مادی دنیا میں ہر چیز اپنی ضد سے قائم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہر چیز کی ضد ہے تو ضد مادہ کیا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ضد مادہ (اینٹی میٹر ) اور ضد ذرہ (اینٹی پارٹیکل) بھی مادہ کی ہی کے زمرے میں آتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ اینٹی میٹر اور اینٹی پارٹیکل دراصل مادہ اور پارٹیکل ہی کی قوت متحرکہ کے طور پر کام کرتے ہیں۔ گویا مادے/پارٹیکل کے مثبت چارج کے مقابلے میں انٹی میٹر اینڈ انٹی پارٹیکل کے منفی چارج ہیں۔ واضح رہے کہ عینیت پرست دنیا کو مادی اور غیرمادی اشیاء میں تقسیم کرتے ہیں جبکہ مادیت پسند دنیا کو مادہ اور مادے کی ترقی یافتہ شکلوں میں دیکھتے ہیں اور انکے نقطہ نظر کے مطابق کوئی شئے غیرمادی نہیں ہوتی۔ ذہن، شعور، روح، جذبات اور احساسات کو آئیڈیلسٹ غیر مادی تصور کرتے ہیں جبکہ میٹریلسٹ کے ہاں یہ سب مادہ کی ترقی یافتہ شکلیں ہیں۔
کسی شاعر نے فرینچ فلاسفر جین پال سارتر کے شعور مرگ کو شاعرانہ انداز میں یوں بیان کیا ہے کہ میرا وجود حقیقت، میرا عدم دھوکا فنا کی شکل میں، سرچشمہ بقا ہوں میں وجود اور عدم کے کا معمہ حل کرتے ہوئے اس بات پر یقین مضبوط ہوا کہ انسان سکوت اور جمود سے اس لیے دور ہے کہ وہ جسمانی اور ذہنی دونوں اعتبار سے مسلسل تبدیلی اور حرکت میں ہے۔ شاید یہی مادے کی اساسی صفت ہے۔ اس طرح انسان کا جسم اور ذہن دونوں ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے رہتے ہیں۔ بالفاظ دیگر حقیقت اور تصور کے درمیان فرق ہی ارتقاء کیلئے راہ ہموار کرتا ہے۔
وجود، عدم اور موجود کائنات سے متعلق انسان کے تصور کو ایجادات نے نئی وسعت دی۔ اس سلسلے میں دوربین کی ایجاد کا اہم کردار ہے۔ اٹالین سائنسدان گلیلیو گلیلی یا ٹیلی سکوپ کی ایجاد سے قبل انسان کے دن رات کے صرف مشاہدہ میں آنے والے سورج، چاند اور ستارے وغیرہ کو کُل کائنات سمجھتا تھا جبکہ ٹیلی سکوپ کی ایجاد نے انسان کو غیرمعمولی وسعتِ فکر و نظر بخشی اور انسان کیلئے کائنات وسیع ہوتی گئی اور اسکے اسرار و رموز بھی تیزی سے کھولنے لگی۔ جدید دوربین سائنسدان گلیلیو کے دوربین سے کئی گنا زیادہ تیز اور ترقی یافتہ ہے جس کی مدد سے انسان نئی سے نئی وسعتوں کو مسخر کرتا جا رہا ہے۔ یہاں تک کہ انسان متعدد سیاروں اور ستاروں کے ساتھ بلیک ہولز کی تصاویر اتارنے میں بھی کامیاب ہو چکا ہے۔
ٹائم اینڈ بلیک ہولز کی درست تفہیم حاصل کرنے کیلئے اسٹیفن ہاکنگ کی شہرہ آفاق کتاب ہماری مدد و رہنمائی کر سکتی ہے. کیا بلیک ہولز حقیقت میں بھی بلیک ہوتے ہیں؟ بلیک ہولز کا ادراک ستارے کی لائف سائیکل کو سمجھنے سے کیوں مشروط ہے؟ کیا خلا مکمل خالی ہوتی ہے؟ کوارک پارٹیکلز اور ان پر اثرانداز ہونے والے بنیادی قوتوں کے بارے میں نامور سائنسدان اسٹیفن ہاکنگ کہتا ہے کہ
” How is it possible that a black hole appears to emit particles when we know that nothing can escape from within its event horizon? The answer, Quantum theory tells us, is that the particles do not come from within the black hole, but from the empty space just outside the black hole’s event horizon.”(4)
اس طرح علم و سائنس کی دنیا میں وسعت اور جدیدیت کا سلسلہ جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہیگا۔ اس ضمن
میں عصر حاضر کے سائنسدان کارل سیگن کی باتیں بھی بہت تیزی سے ثابت ہورہی ہیں جنھوں نے کہا تھا کہ انسانی تحقیق کے نتیجے میں ایسا دور ضرور آئیگا جس میں وہ چیزیں منکشف ہو جائیں گی جو ابھی تک ہماری نظروں سے اُوجھل ہیں۔
” The time will come when diligent research over long periods will bring to light things which now lie hidden.”
کارل سیگن آگے مزید کہتا ہے کہ یہ علم آنے والے زمانوں میں آشکار ہو جائے گا اور ہماری آنے والی نسلیں حیران ہوں گی کہ ہم وہ چیزیں بھی نہیں جانتے جو ان کیلئے عام اور سادھی چیزیں ہوگئیں
So, this knowledge will be unfolded only through long success ages. There will come a time when our descendents will be amazed that we did not know things that are so plain to them. (5)
عدم سے وجود میں آنے کا تصور بڑھتی ہوئی سائنسی معلومات کی اس دنیا میں نہ صرف مبہم بلکہ تیز و تند سوالات کی زد میں ہے۔اس بات کا امکان موجود ہے کہ جس کیفیت کو عدم بتایا جا رہا تھا وہ اس سے مختلف ہو۔ اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا جانا چاہیے کہ شروعات سے عدم کے تصور کو سمجھا غلط گیا اور سائنس و فلسفہ کی دنیا میں رکھا بھی غلط گیا۔ جدید سائنس کی تحقیق کے مطابق خلا بھی یکسر خالی کوئی جگہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں ذرات بھی موجود ہیں اور ان ذرات پر اثرانداز ہونے والا نظام بھی موجود ہے۔ اسطرح عدم (نتھنگ نیس) کے روایتی لفظ کی دونوں تعمیری اور تعبیری معانی میں غلطی ہوئی ہے۔
اس لفظ کو ریڈیفائن اور ری اسیس کیا جانا چاہیے کیونکہ جدید شعور کے مطابق مادہ اور مادی وجود ہی اس کی اصل حقیقت ہے، وجود اور عدم وجود کیلئے موجود معتبر وسیلہ بن سکتا ہے اور جو چیز اس کی نفی کرتی ہے اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے. مادہ کے حوالے سے یہ قانون عملی طور پر آج بھی ناقابل تردید ہے کہ مادہ کو نہ تو تخلیق کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس کو فنا کیا جا سکتا ہے البتہ مادہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل ہوتا ہے۔
# حوالہ جات
۔1. جان ہاسپرس، ابتدائی فلسفہ، ناشر مشتاق، بک کارنر لاہور، 2015، صفحہ 446
۔2. ول ڈیورانٹ، داستان فلسفہ، ناشر فکشن ہاوس لاہور، 2019، صفحہ 653
۔ 3. ایلن وڈز، ٹیڈگرانٹ، مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس، ناشر طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز لاہور، 2012، صفحہ 313
-
-
4۔A Brief History of Time, From Big-bang to Black-holes by Stephen Hawking, Bantam Books, 1995, page 115 – 116
-
5۔Cosmos by Carl Sagan, August 15, 2015
-
https:www.readallbooks.org/book/cosmos