بیرسٹر حمید باشانی
پاکستان کے معاشی و سیاسی حالات لاطینی امریکہ سے مختلف نہیں، لیکن یہاں ابھی تک کسی گلابی لہر کے کوئی آثار نہیں دکھائی دیتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں کی ہر پارٹی، جس کی کوئی “عوامی فالونگ” یا پارلیمنٹ میں سیٹ ہے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے اقتدار میں شریک ہے، اور اقتدار کی برکات سے استفادہ کر رہی ہے۔مرکز میں درجن بھر سے زائد پارٹیاں شریک اقتدار ہیں۔ ان کے خلاف حزب اختلاف کا کردار ادا کرنے والوں نے صوبوں میں اپنی حکومتیں بنا رکھی ہیں۔ اس طرح عوام کو گلابی لہر دکھانے والا کوئی باقی بچا نہیں ۔ کچھ لال لہر کی بات کرنے والی چھوٹی چھوٹی پارٹیاں ضرور ہیں، جو اقتدار سے دور ہیں۔ مگر وہ نظریاتی فرقہ پرستی کے بخار میں مبتلا ہو کر آپس میں دست و گریبان ہیں، اور تقسیم در تقسیم کے عمل کا شکار ہیں۔
لا طینی امریکہ کی صورت یہ ہے کہ پچھلے پانچ سالوں کے دوران، بائیں بازوں کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سیاست دان ارجنٹائن، چلی، کولمبیا، میکسیکو اور پیرو میں جمہوریت کی برکت سے انتخابات جیت کر حکومتیں بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔۔ ان کا عروج دیکھ کر یہ کہا گیا کہ اس براعظم میں ایک “گلابی لہر” آئی ہے۔یہ پوری دنیا میں جمہوریت کے راستے پر چلنے والی بائیں بازوں کی قوتوں کے لیے ایک حوصلہ افزا پیغام تھا۔ لیکن ان ملکوں کی معاشی اور سیاسی صورت حال سے لگتا ہے کہ یہ سارے سیاست دان سنٹر لیفٹ کی طرف جھکا ؤرکھنے کے باوجود عملی طور پر کسی بنیادی نظریاتی تبدیلی کی نمائندگی نہیں کرتے ۔
یہ درست ہے کہ ان کی خارجہ پالیسی اور اقتصادی ترجیحات اپنے پیشروؤں سے مختلف ہیں۔ اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ یہ لوگ ان نیو لبرل اقتصادی پالیسیوں کے پیروکار نہیں ہیں، جنہوں نے 1990 کی دہائی میں اس خطے کو پوری طرح گرفت میں لے لیا تھا۔ ان پالیسیوں میں عوامی سبسڈی کو کم کرنا؛ سرمایہ کاری کے لیے واضح اور ہمدردانہ قوانین بنانا اور معیشت میں ریاستی مداخلت کو کم کرنا وغیرہ شامل تھا۔یہ لیڈر روایتی اشرافیہ کے ممبر نہیں ہیں ۔ اپنے پیشروؤں کی طرح یہ بیرون ملک سے تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں۔
کرسٹوفر ساباتینی کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق تازہ ترین انتخابات سے پہلے بہت سے جدید لاطینی امریکی رہنماان ملکوں کی روایتی اشرافیہ کا حصہ تھے اور متاثر کن غیر ملکی اسناد کے مالک تھے۔ ایوان ڈوکے جنہوں نے 2018 سے 2022 تک کولمبیا کے صدر کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ جارج ٹاؤن جیسی مشہور یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے۔ پینارا سبسشین، جنہوں نے حال ہی میں چلی میں دوسری صدارتی مدت مکمل کی، انہوں نے ہارورڈ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لے رکھی تھی۔پیدرو جنہوں نے 2018 میں پیرو کی صدارت سے استعفیٰ دیا ، انہوں آکسفورڈ یونیورسٹی اور پرنسٹن یونیورسٹی سے گریجویشن کی ہوئی تھا۔ برازیل کے سابق صدر فرنینڈو ہنریک کارڈوسوفرانس اور امریکہ کی معروف یونیورسٹیوں میں پڑھاتے رہے ہیں۔
اس کے برعکس، برازیل، چلی، کولمبیا، میکسیکو اور پیرو کے موجودہ صدور نے بیرون ملک نامور تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل نہیں کی ۔ چلی کے صدر گیبریل بورک، میکسیکو کے صدر اینڈریس مینوئل لوپیز اوبراڈور، اور پیرو کے صدر پیڈرو کاسٹیلو سبھی نے مقامی گرامر اسکولوں، ہائی اسکولوں اور کالجوں سے تعلیم حاصل کی۔ برازیل کے صدر جیر بولسونارو اپنے ملک کی ملٹری یونیورسٹی میں پڑھتے رہے۔ البتہ کولمبیا کے صدر گسٹاو پیٹروبیلجیئم اور اسپین کی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرتے رہے، لیکن انہوں نے اپنی ڈگریاں مکمل کیے بغیر تعلیم کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ مقامی طور پر تعلیم یافتہ سیاسی رہنما اپنے پیشروؤں سے کم صلاحیتوں کے مالک ہیں۔
اس کے بالکل برعکس اپنے ثقافتی اور تعلیمی پس منظر کی وجہ سے وہ اپنے عوام کے زیادہ نمائندہ ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ وہ ایسے لوگوں پر انحصار کرتے ہیں، جو نیو لبرل ازم کی پالیسی سازی کےرجحانات سے کم متاثر ہوتے ہیں۔ لاطینی رہنماؤں کی یہ نئی فصل نیو لبرل آرتھوڈوکسی سے مکمل طور پر الگ ہو گئی ہے۔ وہ ٹیکسوں اور بین الاقوامی سرمایہ کاری کے قوانین کو دوبارہ لکھ رہے ہیں، خاص طور پر قدرتی وسائل سے جڑے قوانین میں واضح تبدیلیاں لا رہے ہیں۔ ان اصلاحات کے پیچھے اصل محرک نظریہ نہیں ہے، بلکہ مارکیٹ اصلاحات کی وراثت کو مسترد کرنا ہے، جو لاطینی امریکہ میں سماجی ناہموار یوں کو دور کرنے اور رجعت پسند ٹیکس پالیسیوں کو واپس لینے میں ناکام رہی ہیں۔
اسی طرح قومی توانائی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کے سوال پر قوم پرستی کے جزبات غالب ہیں۔ اس قوم پرستی نے امریکہ اور کینیڈا کے ساتھ تجارتی تنازع کو ہوا دی ہے۔ ان جذبات کے زیر اثر پیٹرو، بورک، اور کاسٹیلو نے قدرتی وسائل کے استعمال کے سلسلے میں ریاستی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ کاسٹیلو نے ایک وقت میں کان کنی کی مراعات کو ختم کرنے کی دھمکی دی تھی ،اور پیٹرو نے ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیےتیل اور کوئلے کی سرمایہ کاری اور تلاش کو روکنے کا وعدہ کیا تھا۔ بورک نے بین الاقوامی کان کنی کے مفادات کے لیے اوور ہالنگ ٹیکس اور رائلٹی پالیسیوں کے بارے میں ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں، جو بین الاقوامی سرمایہ کاروں کے لیے ایک تباہ کن تبدیلی کا باعث بن سکتے ہیں۔
مغربی اثر و رسوخ کو برقرار رکھنے اور خطے کو چین اور روس سے دور رکھنے کے لیے، مغربی سفارت کاروں کو یہ فکر ہے کہ رہنماؤں کی اس نئی فصل کو کس طرح اپنے ساتھ شامل کیا جائے۔ پورے خطے میں روایتی سیاسی اشرافیہ کو عوامی سطح پر مسترد کیا جا رہاہے۔ حالات بتاتے ہیں کہ یہ رجحان مزید گہراہوگا۔اس وقت لاطینی امریکہ میں بائیں بازوں کی طرف جھکاؤکے رحجانات بہت واضح ہیں۔ لاطینی امریکہ کی چھ بڑی معیشتوں میں سے پانچ میں لیفٹ ونگ یا سنٹر لیفٹ حکومتیں ہیں، اور برازیل کے آنے والے انتخابات میں بھی ایسے ہی نتائج آ سکتے ہیں۔ ان ممالک میں بھوک، ننگ ،غربت، طبقاتی لوٹ کھسوٹ اور کرپشن کے مارے ہوئے عوام نے یکے بعد دیگرے روایتی سیاسی پارٹیوں اور حکمران اشرافیہ کے جانے پہچانے چہروں کو یکسر مسترد کرتے ہوئے بائیں بازوں کی پارٹیوں کے حق میں ووٹ دیے ہیں۔
یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب طویل وبائی بحران اور روس یوکرین لڑائی کی وجہ سے خطے میں پائی جانے والی غربت اور بے روزگاری میں اضافہ ہوا، اور مہگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لاطینی امریکہ میں منتخب ہو کر آنے والی حکومتیں شاید آئیڈیل نہیں ہیں، اور نہ ہی وہ مارکسزم لینن ازم کے سخت سوشلسٹ شرائط پر اترنے کا رادہ رکھتی ہیں۔ لیکں ان لوگوں میں دو باتیں ہیں، ایک تو یہ ہے کہ وہ جمہوری طریقے سے شفاف انتخابات کے زریعے عوامی حمایت سے منتخب ہو کر آئے ہیں، اور دوسرا یہ کہ ان کا واضح ایجنڈا پیشرو کرپٹ اور قدامت پرست پالیسیوں کا خاتمہ ہے۔
لیکن اس وقت ان حکومتوں کا اب سب سے بڑا چیلنج عام کی توقعات پر پورااترنا ہے، جس میں ناکامی کی صورت میں ان کا بھی وہی حشر ہو سکتا ہے، جو ماضی میں اس خطے میں سوشلزم کے نعرے پر برسر اقتدار آنے والی حکومتوں کا ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں حالات لاطینی امریکہ کے حالات سے مختلف نہیں ہیں، مگر یہاں قوم پرستی اور مذہب کے نام پر عوام کی توجہ کو اصل مسائل سے ہٹا کر کہیں اور لگا دیا گیا ہے، ورنہ اس وقت تک اگر لال نہیں تو کم ازکم گلابی لہر کے آثار یہاں بھی نمودار ہو چکے ہوتے۔
♣