منٹھار ایک ڈرائیور ہیں۔ ان کا تعلق سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کی تحصیل کنڈیارو کے چیھو سولنگی گاؤں سے ہے۔
حال ہی میں اُنھوں نے قرضہ لے کر ایک کمرے اور ایک صحن پر مشتمل مکان بنوایا تھا لیکن حالیہ بارشوں میں گاؤں کے دیگر گھروں کی طرح یہ زیر آب آ گیا اور دھنس گیا ہے۔ ابھی وہ پانی کی نکاسی اور مکان کی مرمت کے لیے پریشان تھے کہ قرض واپسی کا تقاضہ کرنے والے بینک حکام نے ان کی پریشانی میں اضافہ کر دیا۔بقول ان کے ان کا گاؤں ڈھائی سو گھروں پر مشتمل ہوگا اور سب نے فصلوں، مال مویشیوں اور دیگر اشیا کے لیے قرضہ لیا ہوا ہے۔ اُنھوں نے پچاس پچاس ہزار کے تین قرضے لیے تھے۔
منٹھار نے بتایا کہ اُنھوں نے آسا پاکستان یعنی اے ایس اے پاکستان پرائیوٹ لمیٹیڈ سے قرضہ لیا تھا جس کی قسط پانچ ہزار روپے کے قریب ہے۔ بینک نے ان بارشوں اور سیلاب کا کوئی خیال نہیں رکھا اور ان کے ریکوری افسر ان کے پاس پہنچ گئے اور قرضے کا تقاضہ کرنے لگے۔اُنھوں نے اُنھیں بتایا کہ چند روز انتظار کریں تاکہ روزگار بحال ہو کچھ بہتری آئے وہ ان کا قرضہ ادا کر دیں گے لیکن بقول ان کے وہ بضد تھے اور روز روز چکر لگاتے رہے جس کے دوران مقامی لوگوں سے ان کی تلخ کلامی بھی ہوئی۔
’کورونا میں بھی ہمارے قسطیں نصف کی گئیں تھیں مگر معاف نہیں ہوئیں۔ ہم نے اُنھیں کہا کہ اس بار بھی ایسا کریں لیکن وہ نہ مانے۔ روز روز دروازے پر آنے کی وجہ سے اُنھوں نے اس بار تو قسط جیسے تیسے دے دی لیکن وہ کہہ کر گئے ہیں کہ اُنھیں حکامِ بالا کا حکم ہے اور وہ دوبارہ ریکوری کے لیے آئیں گے۔‘
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں، فصلوں اور مویشیوں کے نقصان کے بعد زرعی اور ذاتی قرضوں کی واپسی یا واپسی میں رعایت یا معاف کرنے کے بارے میں جب معلومات اکٹھی کی گئیں تو پایا گیا کہ اس سلسلے میں زرعی ترقیاتی بینک کو چھوڑ کر سٹیٹ بینک، کمرشل بینکوں اور سندھ کی صوبائی حکومت کی ایسی کوئی پالیسی نہیں جس کے تحت متاثرہ علاقوں میں بینکوں اور مائیکرو فنانس اداروں سے لیے جانے والے قرضوں کی واپسی پر کوئی ریلیف فراہم کیا گیا ہو۔
حکومت کی جانب سے پاکستان میں سیلاب سے 15 سے 20 ارب ڈالر نقصان کا ابتدائی تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اس میں سب سے زیادہ نقصان کپاس، چاول، اور گنے کی فصل کو پہنچا ہے اور اس وجہ سے ان کی مجموعی پیداوار منفی رہے گی۔اس سیلاب میں مکانوں کی تباہی کا تخمینہ 17 لاکھ لگایا گیا ہے جس میں سندھ میں تباہ حال مکانوں کی تعداد 15 لاکھ ہے۔ لائیوسٹاک کی تباہی کا تخمینہ چار ارب ڈالر لگایا گیا ہے اور اس میں سب سے زیادہ نقصان سندھ میں ہوا۔
پاکستان کے زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے زرعی قرضوں کی وصولی کو ایک سال کے لیے مؤخر کر دیا گیا ہے جن کی مالیت 20 ارب روپے بنتی ہے۔ بینک کے مطابق سیلاب کے علاقوں میں 57 ہزار کاشت کار خاندانوں کو اس سے فائدہ ہو گا۔بینک کے ترجمان انعام اللہ خٹک کے مطابق حکومت سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اس پر چار ارب روپے سود کے بارے میں بھی کوئی اقدام کرے۔
پاکستان میں سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان زرعی شعبے کو ہوا جس میں سب سے زیادہ تباہی سندھ میں ہوئی اور صوبے میں 65 فیصد کپاس کی فصل تباہ ہو چکی ہے۔ پنجاب کے جنوبی حصوں میں سیلاب سے 15 فیصد کپاس کی فصل کو نقصان پہنچا۔ بینک کے ترجمان کے مطابق اس کے 90 فیصد کاشتکاروں کے پاس ساڑھے بارہ ایکڑ سے کم زمین ہے۔
اے ایس اے کے مائیکرو فنانس بینک کے سربراہ تصدق حسین نے بی بی سی اردو کی جانب سے بھیجی گئی ای میل کے جواب میں کہا ہے کہ وہ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ذریعے ریگیولیٹ ہوتے ہیں اور ان کے واضح کردہ خطوط پر عمل پیرا ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ اس بارے میں ابھی تک کوئی واضح ہدایت یا پالیسی نہیں ملی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ ہمارا دل سیلاب متاثرہ لوگوں کے ساتھ ہے۔
ٹیلی نار مائیکروفنانس بینک جو تعمیر بینک کے ساتھ کام کر رہا ہے کی جانب سے تو اخبار میں نادہندگان کا اشتہار دیا گیا ہے جس میں سیلاب سے متاثرہ علاقے کے لوگ شامل ہیں جبکہ اس ادارے کی جانب سے سیلاب زدگان کی مدد کے لیے فنڈ بھی اکٹھے کیے جا رہے ہیں۔
اس حوالے سے ٹیلی نار مائیکرو فنانس بینک کو ای میل کی گئی اور ٹوئٹر کے ذریعے بھی رابطہ کیا گیا تاہم کوئی مؤقف سامنے نہیں آیا۔ متعدد بار رابطے کی کوشش کے بعد یو اے این نمبر پر موجود آپریٹر نے بتایا کہ ان کی قرضے ری شیڈیول کرنے کے بارے میں کوئی پالیسی نہیں۔
پاکستان میں یو فون، جاز، سمیت اکثر موبائیل کمپنیاں، حبیب بینک، خوشحالی بینک، نیشنل رورل سپورٹ پروگرام (این آر ایس پی) اور تھردیپ وغیرہ چھوٹے قرضے فراہم کرتے ہیں تاہم کسی نے بھی ابھی تک قرضے میں چھوٹ یا ری شیڈیولنگ کا اعلان نہیں کیا ہے۔میزان بینک کے ایک اعلیٰ افسر احمد علی صدیقی نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ابھی تک کوئی پالیسی نہیں آئی اور بینک کیس ٹو کیس بنیادوں پر متاثرین کے قرضے کے مسئلے کو دیکھ سکتا ہے۔
سندھ میں سیلاب نے دیہاتی علاقوں کو سب سے سے زیادہ متاثر کیا ہے جہاں کے رہائشی کاروں، گھروں کے بجائے زیادہ تر قرض فصلوں کے لیے لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں نائب صدر سندھ آباد گار بورڈ محمود نواز شاہ نے کہا سندھ کے دیہاتی علاقوں میں نوے فیصد زرعی قرضے پرائیوٹ بینکوں کی جانب سے دیے جاتے ہیں۔
اُنھوں نے زرعی ترقیاتی بینک کی جانب سے 20 ارب کے قرضے سیلاب زدہ علاقوں میں مؤخر کرنے کے فیصلے کے بارے میں نے کہا یہ ایک اچھا اقدام ہے تاہم اس سے سندھ میں سیلاب میں تباہ ہونے والی معیشت کو زیادہ فائدہ نہیں پہنچے گا۔ اُنھوں نے کہا کہ زرعی ترقیاتی بینک کے قرضوں میں سے 70 سے 75 فیصد پنجاب اور صرف 10 فیصد سندھ اور باقی دیگر صوبوں کو ملتا ہے اور اس وقت سندھ میں سب سے زیادہ تباہی آئی ہے اور یہاں زرعی شعبے کو سب سے زیادہ نقصان ہوا۔اُن کے مطابق 90 فیصد زرعی قرضے نجی بینک زراعت کے شعبے میں دیتے ہیں اور ان کی جانب سے ابھی تک کوئی ایسی پالیسی نہیں آئی کہ جن میں سیلاب زدہ علاقے میں کسانوں کو کوئی ریلیف دیا گیا ہو۔
شاہ نے کہا سندھ میں چھوٹا کسان آڑھتیوں سے قرضے لیتا ہے یعنی وہ ادھار پر کھاد اور بیج لیتا ہے ور فصل کی کٹائی کے بعد وہ اسے منافع سمیت واپس کرتے ہیں۔ اُنھوں نے کہا اس طبقے کو بینکنگ چینل سے کوئی تعلق نہیں اور اس کے سر پر سوار قرضہ موجود ہے۔
پاکستان میں زرعی قرضے کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو گذشتہ مالی سال میں بینکوں اور مالیاتی اداروں کی جانب سے زرعی شعبے میں 1400 ارب روپے سے زائد کے قرضے دیے گئے جبکہ اس سے ایک سال پہلے یہ قرضہ 1350 ارب روپے تھا۔ مرکزی بینک نے اس زرعی قرضے کے لیے 1800 ارب روپے کا ہدف مقرر کیا ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے سابق گورنر سلیم رضا نے کہا بینکوں کی جو اپروچ ہے اس میں قرضہ معاف نہیں ہوتا تاہم اس کی ادائیگی میں نرمی ہو سکتی ہے۔ اُنھوں نے کہا کہ اس سلسلے میں حکومت سٹیٹ بینک سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں پالیسی وضع کرے۔اُنھوں نے کہا جہاں تک بینکوں کی بات ہے تو ہر بینک خود فیصلہ کرتا ہے کہ کس کا کتنا نقصان ہوا ہے اور اس بنیاد پر وہ کوئی فیصلہ کر سکتا ہے۔
بی بی سی اردو