تحریر: پائندخان خروٹی
مسلم ممالک میں جب مذہب، فرقہ یا خواتین سے متعلق کوئی بھی مسلہ سامنے آتا ہے تو بالخصوص مذہبی عناصر کی عقل پر جذبات غالب آ جاتے ہیں۔ جذبات کے مشتعل ہونے اور سادہ لوح لوگوں کو مشتعل کرنے میں کوئی چیز حارج نہیں ہوتی۔ طاقت رکھنے والے عناصر کمزوروں پر ظلم و بربریت ڈھانے میں کوئی کمی نہیں ہونے دیتے۔
اس صورتحال کی تازہ ترین مثال ہزاروں سال کا ثقافتی ورثہ رکھنے کے دعویدار ملک ایران میں سامنے آئی ہے جب ایک بائیس سالہ لڑکی مہسا آمینی کو محض اس الزام پر کہ اس کے کچھ بال دوپٹہ سے باہر نظر آرہے تھے ایرانی ” اخلاقی پولیس” جس کو عرب ممالک میں شورتہ کہتے ہیں نے زدکوب کیا، حراست میں لے لیا اور دوران حراست سخت تشدد کے باعث مذکورہ لڑکی کو بےہوشی کی حالت میں ہسپتال لے جایا گیا جہاں بالآخر اس نے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے جان کی بازی ہار گئی۔
تاہم ایرانی پولیس کا دعویٰ ہے کہ لڑکی دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئی جبکہ جاں بحق ہونے والی مہسا آمینی کے والد امجد آمینی کا کہنا ہے کہ ان کی بیٹی معصوم تھی اور ایران کی یونیورسٹی میں اگلے مہینے بائیو ٹیکنالوجی میں داخلہ لینے کو خواہش رکھتی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کی بیٹی کسی قسم کے دباؤ کا شکار نہیں تھی اور اسے اچانک دل کا دورہ پڑنے کا کوئی جواز نہیں۔ جوان بیٹی کی موت سے نڈھال باپ نے شکایت کی کہ ایرانی حکومتی اداروں کی جانب سے واقع کے بارے متضاد بیانات سامنے آرہے ہیں جبکہ حکومت نے اب تک اس سلسلے میں نہ کوئی رپورٹ دی ہے اور نہ کوئی ویڈیو دکھائی ہے۔
ایرانی پولیس کے اس ظلم سے غم اور غصہ کی عوام ایک نئی لہر دوڑ گئی جو نہایت مختصر عرصے میں ایران کے تیس سے زائد بڑے شہروں میں تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔ غم اور غصہ کی یہ لہر بیرونی ملک خاص کر یورپی شہروں بشمول فرانس کے پایہ تخت پیرس اور جرمنی کے پایہ تخت برلن تک پہنچ چکی ہے۔ ایرانی شہروں میں عوام کی جانب سے ہونے والے احتجاج میں منفرد انداز دیکھنے میں آرہے ہیں۔ کسی بھی چوراہے پر خواتین بڑی تعداد میں پہلے جمع ہوتی ہیں، وہاں آگ روشن کی جاتی ہے، عورتیں رقص کے انداز میں چکر کاٹنے کے بعد اپنا حجاب اتار کر پھر اسے نذرآتش کر دیتی ہے۔ بعض مقامات پر خواتین اپنے بال کاٹ کر بھی احتجاج کرتی ہیں۔
اس احتجاج کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ایران کے مرد بھی خواتین کے شانہ بشانہ مزاحمتی تحریک میں شریک ہیں جو احتجاج کے طور پر بعض جگہوں پر اپنے سر منڈوا دیتے ہیں۔ ایرانی حکومت نے مظاہرین سے بات چیت کرنے یا معاملہ کو پرامن طریقے سے رفع دفع کرنے کی بجائے ایک جانب ملک گیر احتجاج کو بیرونی سازش قرار دیا دوسری طرف احتجاج کرنے والوں کے خلاف بےدریغ طاقت کا استعمال کرنے کی ہدایت کی اور ان کی آواز کو دبانے کیلئے انٹرنیٹ کی سہولت پر بھی پابندی عائد کی۔ تاہم یہ احتجاج مزید بڑھتا جا رہا ہے اور اس کی تشہیر بھی دنیا کے کونے کونے تک انٹرنیشنل میڈیا کے ذریعے پہنچ رہی ہے۔
قارئین کو معلوم ہے کہ انسانی حقوق کی پامالی، مہنگائی و بیروزگاری اور خواتین کے حقوق سے متعلق ایران میں احتجاج اور مزاحمت کی تحریکیں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اور یہ تمام تحریکیں الگ الگ تنہائی کا شکار ہو کر معدوم ہو جاتی ہیں۔ جس کی بنیادی وجہ ایک منظم اور باشعور سیاسی قیادت کی عدم موجودگی، سوشو اکنامک سسٹم کا سائنٹفک تجزیہ اور عوام کی امنگوں کو سیاسی قوت میں بدلنے کا فقدان ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ انقلابیوں کی ” تودہ پارٹی ” اور ” فدائین خلق” جیسی تنظیموں کی شاندار جدوجہد کا تاریخی تجربہ ایرانی عوام کا اثاثہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی حقوق کے ترجمان قائدین سرجوڑ کر بیٹھے اور آج کے حالات کے مطابق ایک جامع حکمت عملی وضع کر کے ایرانی عوام کو اس کے گرد منظم کریں اور نئے جوش ولولے کے ساتھ ایران کے سوشلسٹ تحریک اور عوامی انقلاب کو آگے بڑھائیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ عوام کے سامنے بڑی سے بڑی آمرانہ اور رجعتی قوتیں نہیں ٹھہر سکتیں اور جو عوامی سیلاب کے سامنے کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے عوامی سیلاب خس و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے۔
♣