جب پاکستان امریکہ کا سچا دوست ٹھہرا

بیرسٹر حمید باشانی

جیسا کہ گزشتہ کسی کالم میں عرض کیا تھا کہ پچاس کی دھائی کے ابتدائی دو برسوں میں پاکستان اور بھارت کے بارے میں امریکہ کی پالیسی میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی آئی۔ اس دوران پنڈت نہرو اور لیاقت علی خان دونوں یکے بعد دیگرے امریکہ کے دورے کر چکے تھے۔ وزارت خارجہ اور سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی سطح پربھی کافی وسیع ہوم ورک ہو چکا تھا۔ اس ہوم ورک کے نتیجے میں اس موضوع پر چند ایک تفصیلی رپورٹس بھی آ چکی تھیں۔ ان میں اہم ترین نیشنل سیکورٹی کونسل کی رپورٹ تھی، جو پیپر نمبر 68 کے نام سے مشہور ہوئی۔ ان رپورٹس کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا بڑا عنصر کوریا کی جنگ تھی ، جو امریکی پالیسی میں بنیادی تبدیلی بلکہ تشکیل نو کا باعث بنی۔ ان عوامل کی وجہ سے جنوبی ایشیا میں امریکہ کا جھکا و واضح طور پر پاکستان کی طرف ہونا شروع ہوا۔

لیکن امریکی پالیسی میں اس تبدیلی کا آغاز 1949 میں ہی ہو گیا تھا، جب کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے کہ امریکہ کو سوویت یونین کو سامنے رکھ کر ہر ملک کے ساتھ تعلق بنانے کا فارمولا اپنانا پڑا۔1949 میں چین میں قوم پرست سوشلسٹ انقلاب  برپا ہونے، اور سوویت یونین کا جوہری طاقت بن جانے کی وجہ سے امریکی پالیسی ساز خوف اور بے چینی کا شکار ہو گئے تھے۔ اس وقت کچھ با اثر امریکی دانش وروں نے سوویت یونین کو پاگل پن میں مبتلا ایک ایسی انقلابی طاقت بنا کر پیش کرنا شروع کر دیا تھا، جو دنیا کو فتح کرنے کے جنون میں مبتلا ہے، اور پوری دنیا پر قبضے کی تیاری کر رہا ہے۔

ان دانش وروں کا خیال تھا کہ سوویت یونین ان عزائم پر عمل کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ اس بے چینی اور خوف نے امریکہ کو فوجی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ کی طرف مائل کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ خود امریکہ کے اندر سخت سیکیورٹی، کمیونزم کے پھیلا ؤ کو روکنے کے لیے سخت گیر پالیسیاں، سرد جنگ کے حق میں امریکی رائے عامہ میں اتفاق پیدا کرنا، اور سوویت یونین کے خلاف مشرقی یورپ میں بغاوت کرانے کے لیے ایک سخت قسم کی نفسیاتی جنگ کے آغاز جیسے اقدامات شامل تھے۔

اس سوچ اور نئی امریکی پالیسی پر عمل درآمد کے لیے کم از کم پچاس بلین ڈالر کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا، جو ابتدائی اندازوں سے تین گنا زیادہ تھے۔اس بھاری بجٹ اور سخت عزائم کی روشنی میں کمیونزم کے پھیلا و کو روکنےکے لیے جنوبی ایشیا کو بھی مشرقی یورپ کے ساتھ اہم خطوں میں شمار کر لیا گیا۔ نئی پالیسی کے تحت یوں تو ہر ایک ملک کو سویت یونین کے خلاف جنگ میں اہم ملک قرار دیا گیا تھا، مگر پاکستان کی سوویت یونین کے ساتھ علاقائی قربت کی وجہ سے اسے اہم ترین ملک قرار دیا گیا۔ پچاس بلیں ڈالر کا بجٹ اس وقت ایک بہت بڑا بجٹ تھا، جس کے لیے امریکن رائے عامہ کی منظوری حاصل کرنا ایک بڑا مشکل کام تھا۔ مگر عین وقت پر کوریا کی جنگ نے امریکہ میں جنگجو لابی کا کام آسان کر دیا۔

کوریا کی جنگ کی آڑ میں امریکہ کی فارن پالیسی کو بھاری فوجی ضروریات کے تابع بنا دیا گیا۔ جس کا نقطہ ماسکہ سویت یونین کو ڈرانا، یورپ اور جاپان کو یہ باور کرانا تھا کہ ان کے تحفظ کے لیے امریکہ ایک طاقت ور اور قابل اعتماد اتحادی ہے، اور دنیا میں کمیونزم کی پیش قدمی روک سکتا ہے۔ ان مقاصد کا اطلاق جنوبی ایشیا پر بھی ہوتا تھا۔ اس فارمولا کے تحت پاکستان ایشیا میں ایک اتحادی کے طور پر امریکی امداد کے لیے ایک مناسب ترین امیدوار کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

دوسری طرف کوریا کی جنگ نے امریکہ اور بھارت کے درمیان اختلافات کو مزید واضح کر دیا تھا۔ اس وقت صورت حال یہ تھی کہ امریکی دانشور اس بات پر بضد تھے کہ کوریا کی جنگ اور دوسری جنگ عظیم میں کئی طرح کی مماثلتیں ہیں۔ان کے نزدیک کوریا انیس سو اڑتیس کا  چیکوسلواکیہ تھا۔ اور نیویارک اس وقت کا میونخ تھا۔ان دانش وروں کا خیال تھا کہ جرمنی میں ہٹلر کی مزاحمت کرنے میں جمہوریت کی ناکامی کی وجہ سے جنگ شروع ہوئی تھی، اور امریکی وہی غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔ اس ساری صورت حال پر بھارت کا یہ موقف تھا کہ کوریا میں جو کچھ ہو رہا ہے، یہ بنیادی طور پر کوریا کا اندرونی معاملہ ہے۔ کوریا کو تیسری جنگ عظیم کے آغاز کے طور پر دیکھنے کا مطلب ہے کہ اس سے ایک عالمی تصادم شروع ہو سکتا ہے۔

بھارت نے ابتدا میں اقوام متحدہ کی ان قرادوں کی حمایت کی، جن میں شمالی کوریا کو اپنی فوجیں نکالنے کے لیے کہا گیا تھا، اور جارحیت کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کی فوج کی حمایت بھی کی، لیکن جلد ہی بھارت نے اپنی پوزیشن بدل کر ثالثی کا راستہ اختیار کرنے پر زور دینا شروع کر دیا۔ پنڈت نہرو نے مطالبہ کیا کہ چین کو سیکورٹی کونسل میں سیٹ دی جائے،اور سویت یونین کو کوریا سے با عزت انخلا کا موقع دیا جائے ۔ لیکن جب کوریا کو دوبارہ متحد کرنے پر ووٹنگ کا وقت آیا تو بھارت نے اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ اور جب نومبر 1950 میں چین نے جنگ میں شمولیت کا اعلان کیا تو اس کے خلاف لائی جانے والی قرار داد پر بھارت نے سویت یونین کا ساتھ دیا۔ پنڈت نہرو نے واضح طور پر یہ موقف اختیار کیا کہ کوریا کی جنگ کی وجہ یہ ہے کہ چین کو سیکورٹی کونسل میں سیٹ نہیں دی گئی، اور اس کا مکمل ذمہ دار امریکہ کو ٹھہرایا۔

نہرو کے اس موقف کی وجہ سے امریکی میڈیا نے بھارت کے خلاف ایک طوفان مچا دیا اور لکھا کہ نہرو ایک اخلاقی موقف اختیار کرنے میں ناکام رہا ہے، اور اگر سویت انخلا کے لیے خود سٹالن بھی کوئی تجویز دیتا تو اس سے بہتر نہیں ہو سکتی تھی۔جب آزاد دنیا پر وقت آیا تو کوریا میں جارحیت کی مزاحمت کے لیے بھارت نے ایک سپاہی ، ایک ملاح یا ایک پائلٹ تک دینے سے انکار کر دیا۔ بھارت کی جب ضرورت پڑی تو وہ وہاں نہیں تھا۔ دوسری طرف پاکستان نے امریکی پالیسیوں کا کھل کر ساتھ دیا۔ اور اپنی بساط سے بڑھ کر مدد کرتے ہوئے پانچ ہزار ٹن گندم کا عطیہ دیا۔ لیاقت علی خان نے کوریا کی جنگ کے لیے ایک برگیڈ تیار کرنے کا اعلان کیا، اگرچہ یہ برگیڈ جنگ میں شریک نہیں ہوا، چونکہ اس کے ساتھ لیاقت علی نے یہ شرط رکھ دی تھی کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کر دیا تو امریکہ پاکستان کی مدد کا وعدہ کرے، اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے پاکستان کی مدد  کرے۔

اس کے علاوہ ایک بڑے قدم کے طور پر پاکستان اس قرار داد کا کوہ سپا نسر بن گیا، جس میں امریکی فوج کو کوریا میں کاروائی کرنے کا اختیار دیا گیا تھا۔ اور شمالی کوریا کو جارحیت کا مرتکب قرار دیا گیا تھا ۔یہ قرارداد سپا نسر کرنے پر نیویارک ٹائمز نے پاکستان کو جنوبی ایشیا میں مریکہ کا سچا دوست قرار دیا۔ امریکی اہل کاروں نے پاکستان کی اس خدمت کا اعتراف کیا اور کہا کہ اس کے اس کردار کی وجہ سے ایشیائی ممالک کو قابل ذکر تعداد میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی حمایت کے لیے تیار کرنے میں مدد ملی، جس کے لیے امریکہ پاکستان کا احسان مند ہے۔

تاریخ نویسوں نے تسلیم کیا ہے کہ کوریا کی جنگ میں بھارت اور پاکستان کا کردار ہی بالآخر 1954 میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان پہلے فوجی معاہدے کی بنیاد بنا، جس کا احوال آیندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔

Comments are closed.