امریکہ نے تحریک طالبان پاکستان اور برصغیر میں القاعدہ کے چار رہنماؤں کو جمعرات کے روز عالمی دہشت گرد قرار دے دیا۔ واشنگٹن نے افغانستان میں بڑھتے ہوئے خطرات کے مدنظر ان کے خلاف کارروائی کرنے کا بھی عزم ظاہر کیا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے جمعرات کے روز جاری ایک حکم نامے کے تحت تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوسرے سب سے بڑے رہنما مفتی حضرت دروجی، جو قاری امجد کے نام سے مشہور ہیں، کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔
گزشتہ 15برسوں سے پرتشدد کارروائیوں میں مصروف ٹی ٹی پی نے گزشتہ برس افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد سے اپنی سرگرمیاں کافی تیز کر دی ہیں۔
امریکی عہدیداروں کے مطابق قاری امجد پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے آپریشنز اور عسکریت پسندوں کی نگرانی کے ذمے دار ہیں۔
امریکہ نے برصغیر ہندو پاک میں القاعدہ (اے کیو آئی ایس) کے امیر اسامہ محمود، نائب امیر عاطف یحیٰ غوری اور القاعدہ میں لوگوں کی بھرتی کرنے والی یونٹ کے ذمے دار محمد معروف کو بھی عالمی دہشت گرد قرار دیا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے ایک بیان میں کہا کہ مذکورہ افراد کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ افغانستان بین الاقوامی دہشت گردوں کی آماجگاہ نہ بنے۔بلنکن نے مزید کہا، “امریکہ افغانستان میں سرگرم دہشت گرد گروپوں کی طرف سے لاحق خطرات کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے“۔
امریکی محکمہ خارجہ اور وزارت خزانہ کی جانب سے ان چاروں افراد کو عالمی دہشت گرد قرار دے دیے جانے کے بعد امریکی شہریوں پر ان سے کسی بھی قسم کا لین دین ممنوع ہوجائے گا اور امریکہ میں ان کے اثاثوں اور دیگر مفادات پر بھی پابندی عائد ہو جائے گی۔
امریکی محکمہ خارجہ نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف یہ اقدام اس بات کا عملی مظہر ہے کہ امریکہ اس عزم پر قائم ہے کہ بین الاقوامی دہشت گرد افغانستان میں بلا خوف وخطر کام کرنے کے قابل نہ ہوں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ برصغیر میں القاعدہ اور ٹی ٹی پی کی صورت میں افغانستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں سے لاحق خطرات کو ختم کرنے اور ددہشت گردی کے انسداد کے لیے ہر حربہ استعمال کرتا رہے گا۔خیال رہے کہ امریکہ نے 31 جولائی کو کابل پر دو میزائل حملوں کے ذریعہ القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری کو ہلاک کر دیا تھا۔
امریکہ نے اپنے اس اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے طالبان پر الزام لگایا تھا کہ اس نے القاعدہ کو پناہ گاہ فراہم نہ کرنے کی اپنی یقین دہانیوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ طالبان نے تاہم اس الزام کی تردید کی تھی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے دو دہائیوں کے بعد گزشتہ برس افغانستان سے امریکی افواج کو واپس بلالیا تھا۔ انہوں نے اس وقت کہا تھا کہ امریکہ نے اپنا مقصد حاصل کرلیا ہے اور اب مزید کچھ حاصل نہیں کیا جاسکتا اور امریکی فوج افغانستان میں موجودگی کے بغیر بھی عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں کرسکتی ہیں۔
♣