مہرجان
جس طرح جنگ، نظریہ اور فکر کی پاپند ہوتی ہے اسکی اپنی ایک جدلیات ہوتی ہے، اسی طرح جنگ “اصول و قانون” مضبوط ڈسپلن”اور “کمانڈ اسٹرکچر” کی بھی پاپند ہوتی ہے ، یہ سب کچھ جدلیاتی تناظر میں تاریخی مراحل سے گذر کر ، زمینی حقائق کے مطابق پنپتے رہتے ہیں نہ کہ باہر سے بقول ماؤ “ہو بہو نقل شدہ” صورت میں اپنائے جاتے ہیں۔جسے دوسرے الفاظ میں “میکانیکی جدلیات” کہا جاتا ہے ،میکانیکی جدلیات اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ “ایکسٹرنل” ہونے کی بنیادی خامی رکھتی ہیں ، جو زمینی حقائق سے عدم مطابقت کی وجہ سے ناکامی پہ منتج ہوتی ہے۔
اس لیے بابا مری کی طرز فکر یا طرز سیاست ہمیشہ “فطری جدلیات” کے عین مطابق اپنی زمین سے جڑی ہوئی دکھائ دیتی ہے، وہ یکمُشت کسی قسم کا ادارہ بنانے یا ہوبہو کسی ادارے کو کسی اور زمین سے نقل کرنے ، یا کسی کتاب سے اصول و قوانین کا چرپہ لیکر اپنی زمین پہ ہو بہو اسے لاگو کرنے کے کبھی بھی قاہل نہیں تھے بلکہ جدلیاتی انداز سے اپنی ہی زمینی نفسیات اپنےوقت ، ضروریات اور مزاج کے مطابق ادارہ ، اصول اور قوانین مرتب کرنے کے خواہش مند ضرور تھے۔ حتی کہ وہ “سوشلزم”کو بھی بلوچ قومیت و بلوچ سرزمین کے تناظر میں دیکھتے تھے جو ایک طرح سے جدلیاتی نقطہ نگاہ ہے، جدلیاتی نقطہ نگاہ کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ زمین و تاریخ سے مطابقت رکھتی ہے اس میں کسی بھی تاریخی مرحلے کی مکمل نفی ممکن نہیں۔
اس لیے تاریخی بیگانگی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جو حاکم وقت کا موثر ترین ہتھیار ہوتا ہے کہ محکوم کو اس کی تاریخ سے بیگانہ کردیاجائے، جو دانش تاریخ کے کسی مرحلہ کی مکمل نفی کرتا ہے وہ دراصل تاریخی و جدلیاتی شعور سے بے بہرہ ہوتا ہے ،اسی جدلیاتی نقطہ نگاہ سے دراصل زمینی حالات واقعات و تاریخی مراحل سے “اصول و ضوابط” ، “ڈسپلن و کمانڈ اسٹرکچر” کی پرورش ہوتی رہتی ہے۔ اور کسی بھی گوریلا یا جُہدکار کا ان” جنگی اصولوں” ، “جنگی ڈسپلن” اور “کمانڈ اسٹرکچر” کے ماتحت رہنا بذات خود ایک انقلاب ہوتا ہے۔جو وقت کے ساتھ ساتھ بپا ہوتا رہتا ہے۔ جب بات میدان جنگ کی ہو تو یہ “اصول، ڈسپلن ، قوانین ہمیشہ خواہشات پر غالب آتے ہیں۔
یہ سب کچھ اسی وقت ممکن ہے جب ذات کی نفی کی جائے۔ جنگ میں “ذات کی نفی” اولین اصول اور شرط ہے۔ جنگی تربیت میں سب سے پہلے گوریلا اپنی ذات کی “نفی” کرتا ہے جو کہ اس کی وسیع تر ذات کا “اثبات” بنتی ہے۔ یہی جدلیات ہے کہ “آپ کی ذات کی نفی سے آپ کی ذات کی اثبات ہو”۔ باالفاظ دیگر “گوریلا کو اس کا سایہ بھی نہیں پہچانتا”۔ گوریلا ایک ایسے عاشق کی مانند ہوتا ہے جو خود کو مٹا کر اپنے محبوب کا عکس بن جاتا ہے۔ اس کا اپنا کوئی عکس کوئی نام کوئی وجود نہیں ہوتا۔ دیکھا جائے تو طاقت کے بچاری اذہان جو کسی بھی قسم کا مادی یا شخصی مقصد رکھتے ہیں وہ جہدکار بننے کی اہلیت نہیں رکھتے اور تحریکوں کے لئے یہ غلامانہ ذہنیت رکھنے والا تاریخ میں سب سے بڑا نقصان دہ ثابت ہوگی ، جب جہدکار اپنی ذات کی نفی کرتا ہے تو اس سے جنگ میں پراسراریت کا پہلو نمودار ہوتا ہے ، اب جنگ میں جتنی “پراسراریت”ہوگی جنگ اتنی ہی خطرناک ثابت ہوتی ہے، جبکہ اس کے مقابل بقول بابا مری جنگ میں جتنا “ظاہرداری”ہوگی اتنا ہی دشمن کے لیےخطرہ کم ہوتا جائے گا۔
نیچر کی سریت کو قابو کرنے کے لیے بڑے بڑے دماغ (فلاسفرز اور سائنسدان ) نیچر کے قوانین کے مطالعہ میں روز شب لگے ہوتے ہیں تاکہ نیچر کو قابو کیا جاسکے، اسی تناظر میں جنگ کی سریت ہی جنگ کے لیے فتح کُن ہے، دشمن بھی پراسرار طریقہ کار اور مختلف میکنزم کو اپنا کر تشدد کی مختلف اشکال میں محکوم پہ تشدد کررہا ہوتا ہے ، اب یہ محکوم کی قیادت پہ منحصر ہوتا ہے وہ قیادت “جو وقت کا شعور رکھتی ہو” کہ وہ کیسے مجموعی صورتحال پہ نظر رکھ کر اپنی پراسراریت کو دوام دے کر دشمن کے تشدد کی میکنزم کو سمجھ کر اپنا دفاع اور دشمن پہ حملہ آور ہوتا ہے ۔ اسی لیے “دشمن کو جاننا “ ایک الگ سبجیکٹ کے طور پہ جنگوں کے دوران پڑھایا جاتا ہے ، جس میں دشمن کے آلات سے لے کر نفسیات تک کو زیر بحث لایا جاتا ہے ، تاکہ دشمن کو ہر حوالے سے جانا اور سمجھا جاسکے ، کیونکہ دشمن کو سمجھے بغیر متواتر جنگ کرنا جنگی جدلیات ، جنگی حکمت عملی کے منافی ہے ۔
اسی تناظر میں جنگ میں سرپرائز کو پراسراریت کے حوالے سے بھی دیکھا جاتا ہے ، یہی سرپرائز جنگ کو فیصلہ کن موڑ میں لانے کے لئے اہم کردار ادا کرتی ہے ، دشمن کو نہ صرف میدان جنگ میں سرپرائز دیا جاتا ہے، جہاں سے دشمن کو حملے کی توقع ہی نہ ہو بلکہ لٹریچر میں بھی دشمن کو گمراہ کرکے نفسیاتی طور پر کسی اور سمت لگایا جاسکتا ہے ، یہ دشمن پہ جسمانی سے بڑھ کر اعصابی (نفسیاتی) حملہ ہوتا ہے ۔ اس بات سے قطع نظر کہ جنگ کی تاریخ میں ہیرو یا کسی چہرہ کی ضرورت کس قدر اہم ہے لیکن بغیر کسی مخصوص چہرہ کے جنگ جس قدر پراسرار (خطرناک) ثابت ہوتی ہے اس کا کوئ تصور بھی نہیں کرسکتا ، مجھے یاد ہے2006کے اوائل میں ایک دفعہ ایک صحافی نے بلوچستان میں جاری جنگ کو
Faceless war /Leaderless war
کہا تھا۔
، اس طرح کی جنگ کی کئی اقسام ہیں۔ حاکم کے لاکھ چاہنے کے باوجود ایک مخصوص چہرے کا منظر عام پر نہ آسکنا ایک طرح سے محکوم کی جنگ کا بالغ ہونے کا ثبوت ہے ۔کسی بھی گوریلا جنگ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک اصول یہی ہے کہ “پراسرار یت” کو ہر حد تک فروغ دیا جاسکے ۔اس لیے آج کے دور میں جنگ کی پراسراریت کے لیے ڈیجیٹل دنیا سے کسی حد تک جہد کاروں کا کنارہ کش ہونا لازمی امر ہے اس پر باقاعدہ کتابیں لکھی جارہی ہیں اور فلمیں بن رہی ہیں کہ آج کی دنیا میں آپ کا جتنا ڈیجیٹل دنیا سے رابطہ کم ہوگا آپ اتنے ہی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں، کیونکہ ڈیجیٹل دنیا نیو کالونیل ازم کی ایک ایسی شکل ہے جہاں آپ نہ چاہتے ہوئے بھی زنجیروں کی طرف دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ آپ کے سائیکالوجیکل رویوں سے لے کر ہر قسم کا مواد ڈیجیٹل دنیا اکھٹا کر رہی ہوتی ہے جو کہ نیو کالونیل ازم کا ہدف ہے اور دشمن کی فتح یابی کا ذریعہ بھی ہے۔
ہو سکتا ہے کوئ تاریخ سے حوالہ دے کر مضبوط رائے قاہم کرلے کہ تاریخ میں ہیرو کی ضرورت رہتی ہے ،اور حالات کے مطابق ایک ہیرو یا چہرہ سامنے لاکر محکوم عوام کو جنگ کی جانب راغب کیا جاسکتا ہے ، اس کے برعکس اگر یہ تصور کیا جائے کہ محکوم بغیر کسی چہرے کے فقط اپنی غلامی کا طوق اتارنے کے لیے جوق در جوق جنگ میں شامل ہوتا جائے۔ اس کے لیے نظریہ ، وطن ، قوم اور آزادی ہی واحد معیار ہو ، تو دشمن لاکھ چاہے انہیں توڑ نہیں سکے گا ۔دشمن کی پوری جنگ میں اَسی سے نوے فیصد تک جنگ یہی ہوگی کہ کہاں سے حملہ آور ہوکر نفسیاتی طور پر ان کو توڑا جاسکے اس طرح کی جنگ تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں لڑی جاسکے گی جو جنگ کی “پیراڈائم شفٹ” ہوگا ۔ یقینا اس طرح کا سفر بہت ہی دیرپا اور صبر آزما ہوتا ہے لیکن بقول رومی “مجھے پتہ ہے کہ آپ تھک گئے ہو لیکن رستہ یہی ہے”۔
(جاری ہے)
Pingback: جنگ کی جدلیات۔پانچواں و آخری حصہ – Niazamana