سوشلزم اور آج کی دُنیا

جہانزیب کاکڑ

جس طرح تاریخی طور پر معاشی و معاشرتی بگاڑ کے خیالات اور منصوبوں کا راج رہا ہے اسی طرح معاشی و معاشرتی بگاڑ کو دور کرنے والے منصوبے اورخیالات بھی برابر پنپتے رہے ہیں۔

اُنیسویں صدی کے اوائل میں فرانس اور انگلینڈ میں معاشی ومعاشرتی اصلاح کے منصوبے پیش کئے گئے جن کے پیش کُنندگان میں رابرٹ اووین، چارلس فورئیے، ہینری ڈی سینٹ سائمن، ایٹائینے کیبٹ وغیرہ کا نام قابلِ ذکر ہے۔ جنہوں نے عملی طور پر چند ایسی ماڈل بستیاں بسائیں جن کی بنیاد باہمی تعاون اور عدم مقابلہ پر رکھا گیا۔ نتیجتاً یہ منصوبے بارآور نہ ہوسکے جنہیں خیالی سوشلزم یا

(utopian socialism)

کہا گیا۔

خیالی سوشلزم کے بعد سائنسی سوشلزم کا زمانہ آتا ہے جس کے اُصول وضوابط مارکس اور اینگلز نے مرتب کیے۔ بعدازاں جن کا تخلیقی اطلاق کرتے ہوتے لینن نے اکتوبر ۱۹۱۷ میں پرولتاریہ کی مدد سے انقلاب برپا کردیا۔جوکہ ۲۶ دسمبر۱۹۹۱ تک قائم رہا۔ اس انقلاب کے دور رس اثرات مرتب ہوئے۔ جس میں سوویت یونین کی بلند پیمانے پر  تعمیر، محکوم اقوام کی تحریکِ آزادی کی حمایت، فاشزم سے نجات اور سب سے بڑھ کر دُنیا کو دو کیمپوں سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ میں تقسیم کردیا۔

سوشلسٹ نظام نے بہرحال سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں عارضی پسپائی اختیار کرلی۔( جسکی وجوہات الگ بحث کے متقاضی ہیں) کیا اِس کا یہ مطلب ہے کہ ایک بہتر دُنیا کی تعمیر کا خواب شرمندہء تعبیر نہیں ہوسکتا یا دوسرے لفظوں میں، کیا سوشلزم اب قصّہء پارینہ بن چکا ہے؟

یقیناً اس کا جواب نفی میں ہے۔ 

تاریخی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے اِنسانوں کی مجموعی فلاح وبہبود کا خواب اب بھی شرمندہِ تعبیر ہوسکتا ہے اور اسے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے۔سوویت یونین اور دیوارِ برلن کے انہدام پر تو سرمایہ دارانہ دُنیا نے خوشی کے شادیانے بجائے مگر سرمایہ داری کے سابقہ بحرانات بالخصوص ۲۰۰۸ کی عالمی مالیاتی بحران جس کے اثرات سے اب تک دُنیا نہیں نکل سکی نے ثابت کردیا کہ سوشلزم کے آنے تک سرمایہ داری نظام معاشرے کو یونہی بحرانات سے دوچار کرتی رہے گی ۔

اس وقت عالمی معیشت انتہائی سست روی کا شکار ہے۔ آئی ایم ایف کے اعداد وشمار کے مطابق ۲۰۲۲ کی۳۔۲ % کی شرحِ نمو کے مقابلے میں اس سال یعنی ۲۰۲۳ میں عالمی معیشت کی شرحِ نمو ۲۔۷% فیصد رہے گی۔ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق رواں سال عالمی معیشت کی شرحِ نمو فقط ۲۔۳ % رہے گی۔ اتنی قلیل شرح سے عالمی معیشت کساد بازاری کی طرف جاسکتی ہے۔ ترقی یافتہ معیشتیں۲۰۲۲ کی۲۔۷ کی شرحِ نمو کے مقابلے میں رواں سال صرف۱۔۲ % کی شرح سے نمو پائیں گی۔

امریکی فیڈرل ریزرو کے شرحِ سود میں اضافے کی بدولت ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے جبکہ باقی کرنسیوں کی قدر گھٹ رہی ہے۔سٹیگ فلیشن کی اس کیفیت کے اثرات بہر حال دیگر ممالک پر بھی پڑ رہے ہیں جس کی وجہ سے عالمی سطح پر افراطِ زر میں اضافہ ہورہا ہے۔ افراطِ زر کو کنٹرول کرنے کے لیئے شرحِ سود کو بڑھایا جارہا ہے جس کے اثرات مہنگائی بیروزگاری، آمدن اور اُجرت میں کمی کی شکل میں پڑ رہے ہیں۔

قصہ کوتاہ یہ کہ عالمی معاشی وسیاسی منظر نامہ اب سرمایہ داری کے حق میں نہیں رہا اور اب تو لبرل ڈیموکریسی کا چیمپین فوکویامہ ( جس نے سویت یونین اور دیوارِ برلن کے انہدام کو تاریخ کا خاتمہ قراردیا تھا) بھی دبے دبے لفظوں میں تسلیم کر رہے ہیں کہ سوشلزم کو آنا چاہیئے آمدنی میں برابری کے طور پر،  نہ کہ ذرائع پیداوار کی اشتراکیت کے طور پر۔ دوسرے لفظوں میں وہ یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ معاشرے کی ازسرِ نو معاشی وسماجی تشکیل کی ضرورت ہے۔ جوکہ سوشلزم کے بغیر ممکن نہیں ہے۔

One Comment