ازلی رشتہ


کوی شنکر

‘‘ میں تمہاری لئے کیا ہوں، ہمارا رشتہ کیا ہے۔’’ تم مجھے اس بات کا جواب کیوں نہیں دیتے۔ سندھو نے آج پھر وہ سوال دہرایا جس کا میں کبھی جواب دے ہی نہیں پایا۔ ۔ ۔

جب جواب معلوم ہی نہیں تو کیا جواب دوں۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ تم جانتی ہونا میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ ۔ ۔ پھر کیوں پوچھتی ہو؟’’

‘‘نہیں مجھے سننا ہے۔ ۔ ۔ تم بتاؤ۔ ۔ ۔ میں تمہارے لئے کیا ہوں، اور ہمارا رشتہ کیا ہے۔’’ سندھو نے اپنی بات دہرائی۔ ‘‘چیزوں کا تو مول کیا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔ مگر رشتوں کا نہیں ؟؟ ہمارا رشتہ جس میں ہم جسم کو چھوئے بغیر روح تک پہنچے ہیں۔ ۔ ۔ تم اور میں خوش روح ہو۔’’۔

‘‘ میں تمہارے جواب سے مطمئن نہیں ہوں۔ ۔ ۔؟’’ سندھو نے منہ دوسری طرف کرکے پوچھا۔

‘‘تم انمول ہو۔ ۔ ۔ تمہارا مول نہیں کیا جاسکتا۔ ۔ ۔اور میں ہمارے رشتے کو بھی الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ ۔ ۔ ۔ اگر میں لکھنے بیٹھوں تو سارا سمندر سیاہی ۔ ۔ ۔ ۔’’۔

سندھو نے منہ پر ہاتھ رکھ کر مجھے روک دیا اور کہنے لگی: ‘‘جانتی ہوں مجھے یہ بات اب رٹ چکی ہے۔ ۔۔۔ سارا سمندر سیاہی اور تمام درخت قلم ہوجائیں، تب بھی محبت اور ہمارے رشتے کو مکمل بیان کرنا ناممکن ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لاب لاب لاب۔ ۔ ۔’’۔

‘‘ہاں یہی حقیقت ہے۔ ۔ ۔ سندھو۔۔۔۔’’ میں نے وضاحت کی ‘‘۔

ہر رشتوں کا نام ہوتا ہے۔۔ ہمارے رشتے کا کیوں نہیں ۔ ۔؟’’ سندھو نے پوچھا ‘‘۔

ہمارا روح کا رشتہ ہے۔ ۔ اور ایسے رشتے کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ ۔ ۔ تم چاہو تو کوئی بھی نام دے سکتی ہو۔ ۔ تمہیں اجازت ہے۔ ۔ ۔ ۔ خون کے رشتوں سے انتخاب کرو یا پھرکوئی اور رشتہ جو تمہارا دل چاہے۔ ۔ ۔ ۔ مگر یہ مت بھولنا کہ ہم زمین، زمان اور مکاں کی قید سےآزاد ہیں۔ ہم روح کُل ۔۔۔۔ پرم آتما کا حصہ ہیں ‘‘ ۔

تم مجھ سے اتنا پیار کرتے ہو تو پھر اتنے کڑوے کیوں ہوجاتے ہو۔ ۔؟’’سندھو کی آواز رُندھ گئی۔

میں خاموش اسے دیکھے بغیر زمین کو تکنے لگا۔ ۔ ۔ مگر اسے جواب دینا ضروری تھا۔ کیونکہ کچھ سوالوں کے جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔۔ اس لئے کہ کبھی کبھی چھوٹی جھاڑی بروقت نہ ہٹانے سے دیوار کی طرح حائل ہوجاتی ہے۔ ۔ ۔ جیسے پانی نہ دینے سے پیڑ پودے سوکھ جاتے ہیں ۔۔ اسی طرح رشتوں کے درمیاں آنے والی جھاڑیوں کی دیوار کو ہٹانے کے ساتھ رشتوں کی آبیاری بیحد ضروری ‘‘۔

سندھو تم نے ٹھیک کہا میں کڑوا ہو جاتا ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ہم بیشک اس روح کُل پرم آتما کا حصہ ہیں مگر ہم یہاں انسانی روپ میں ہیں ۔ ۔ ۔ ہم وہی کریں گے، کرتے ہیں یا کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں جو انسان کی فطرت ہے۔ ۔ہم فرشتے نہیں۔ ۔ ۔ اوتار یا دیوتا نہیں ہیں ‘‘۔

اچھا اور وہ جو تم نے کہا تھا ۔ ۔ ۔ نیم کے پیڑوں کے بارے میں ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کیا تھا۔ ۔ ۔ ’’ سندھو نے پوچھا۔ ‘‘

ہم مٹی سے جڑے لوگ ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ہم میں تاثیر بھی مٹی سے ہی آتی ہے۔ ۔ ۔ تم کو پتہ ہوگا پہلے نیم کے بہت پیڑ ہوا کرتے تھے۔ ۔ ۔ ۔اور نیم زمین کی ساڑی کڑواہٹ اپنے اندر جذب کر لیتا ہے۔ ۔ ۔ اس لئے لوگوں میں مٹھاس رہتی تھی۔۔ اب جب نیم غائب ہوتا جارہا ہے اور مجھ سمیت لوگوں میں کڑواہٹ آگئی ہے۔ ’’۔

‘‘میں تمہاری کئی باتوں سے اختلاف رکھتی ہوں۔ ۔ ۔اور تمہیں کہتی بھی ہوں۔ ۔ مگر تم وضاحت نہیں دیتے۔ ۔ ۔ ۔؟؟’’ سندھو نے پوچھا۔ ‘‘تم کو مجھ سے اختلاف رکھنے حق ہے۔ اختلاف اور مخالفت میں فرق ہوتا ہے۔ ۔ جہاں اختلاف ہو وہاں اظہار کرنا چاہیے۔ جس طرح تم مجھ سے اختلاف رکھتی ہو مجھے بھی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ مگر مجھے وہ ظاہر کرنا اچھا نہیں لگتا۔ ۔ ۔تم کر لیتی ہو کافی ہے۔ ۔ ۔ویسے بھی ہم میں کوئی فرق تو نہیں ہے ’’۔

‘‘مگر جہاں اختلاف ہو بتانا چاہیے نا ؟؟’’ سندھو نے میری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ ‘‘ ہاں کہنا چاہئے مگر میں نہیں کہہ سکتا ۔ ۔ اس لئے کہ مجھے ڈر رہتا ہے۔ ۔ ۔ اختلاف کا اظہار شاید قابل برداشت نہ تو۔ ۔ ۔ ۔ ’’۔

میں نے بات ادھوری چھوڑ دی۔سندھو شاید میرے اندر کے خوف کو بھانپ گئی تھی، اس لئے خاموش رہی، کچھ دیر بعد کہنے لگی ‘‘۔

گھر میں بھی تو دو برتن ٹکرا جاتے ہیں۔ ۔ ۔ جب ساتھ رہنا ہے تو پھر الگ کیوں ہونگے ۔ ۔ ۔’’ ‘‘ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ ۔ ۔ مگر مجھے ڈر ہے۔ ۔ ۔ میں شاید کبھی نہیں کر پاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہے میرے نام کا مطلب کیا ہے۔؟’’ نہیں ۔ ۔ ۔ مجھے نہیں معلوم تم شنکر ہو شو شنکر۔ ۔ ۔ ۔’’۔

سندھو کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ‘‘میرے نام کا مطلب ہے سکھ دینے والا۔۔ ۔ ۔ جب سمندر منتھن (بلوہنامیں زہر نکلا تھا تو دیوتا اور دانو راکشسزہر سے خوفزدہ ہوگئے تھے۔ ۔ زہر کوئی نہیں پی رہا تھا۔۔ تب شو نے یہ زہر اپنے گلے میں اتار لیا ۔ ۔ ۔ جس سے شو کا گلا نیلا پڑ گیا تھا۔ ۔ ۔ اس لئے شو کو نیل کنٹھ کہتے ہیں۔ ۔ ۔ شو نے زہر پی کر انسان کو جینے کا سُکھ دیا تھا۔ ۔’’۔

‘‘ اچھا تو تم سکھ دیتے ہو۔ ۔ ۔’’ سندھو چونکتے ہوئے کہنے لگی۔ ۔ ۔‘‘ مگر مجھے تو تم نے صرف دکھ دئے ہیں۔ ۔ ۔ میرے حصے کا سکھ کہاں ہے۔ ’’ ‘‘ میں نے ہمیشہ تم کو سکھ دینا چاہا ہے اور کوشش بھی کی ہے۔ ۔ ۔ مگر یہ میری بدنصیبی ہے کہ سکھ دینے کے چکر میں تمہیں دکھوں کے سوا کچھ بھی نہیں دیا۔

اب مجھے یقین ہوگیا ہے کہ میں تمہیں کبھی کوئی خوشی یا سکھ نہیں دے سکوں گا۔

’’ میری بات پر سندھو افسردہ ہوگئی۔ ۔۔ ۔ ۔ میں نے اس کی افسردگی ختم کرنی چاہی۔ ۔

مگر اس نے کہا ۔ ۔ ۔‘‘ کچھ نا کہو۔ ۔ ۔چپ چاپ میرے ساتھ چلو۔ ۔ ۔’’۔

اور ہم خاموش ساحل پر تاروں بھری رات میں چلتے رہے۔۔ ۔ ہوا اور لہروں کی آوازیں گونجتی رہیں۔ ۔ ۔ آوازیں روحوں کے گیتوں جیسی تھیں۔۔۔ جو جزیروں سے ہوکر لہروں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتی ساحل کو اپنی مقدس آماجگاہ بنارہی تھیں۔

 

Comments are closed.