“ہم گھاس کھائیں گے لیکن ایٹم بم بنائینگے” ذوالفقار علی بھٹو۔
اب ہم نے تقریبا 300 ایٹم بم بنائے ہیں۔ بھارت، اسرائیل، برطانیہ اور فرانس نے بھی کم و بیش اتنے ہی بم بنا رکھے ہیں۔ لیکن ان ملکوں میں لوگ بھوک کی وجہ سے خودکشیاں تو نہیں کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب گھاس کون کھائیگا؟ بلاول بھٹو، نواز شریف، آصف زرداری، عمران خان، مریم نواز، شہباز شریف، فضل الرحمان، سراج الحق، جنرل باجوہ، جنرل عاصم منیر، اعجاز الحق، ثاقب نثار، ۔۔۔ ؟ یا پھر حامد میر، کامران خان، شاہزیب خانزادہ، مطیع اللہ جان، رضا رومی، مظہر عباس، منصور علی خان، مرتضی سولنگی ۔ ۔ ؟؟
واضح رہے کہ ہم تین سو کے قریب بم بنا چکے ہیں اور اب گھاس کھانے کا وقت آگیا ہے۔ کوئی رضاکار ؟؟ میں تو گھاس نہیں کھاؤں گا! انکار کا سبب قربانی سے گریز نہیں لیکن اس لیے کہ ایٹمی ہتھیاروں جیسے انسان دشمن عمل کے لیے گھاس کھانے کے بجائے ڈوب مرنا بہتر ہے۔ جب بھٹو نے گھاس کھانے کا نعرہ لگایا تو ماسوائے چند بائیں بازو اور قوم پرست جماعتوں کے، سب نے مل کر اس کی حمایت کی۔ یہی کچھ ملک کے حاکم دانشوروں نے کیا۔
اب ہم کچھ بھی کہیں، کتنے بھی جمپ لگائیں، سمرسالٹ کریں، یوٹرن ماریں، گالم گلوچ کریں، ماضی حال یا مستقبل کا تجزیہ کریں، غیر ملکی ایجنسیوں پر الزامات لگائیں، لیکن آج کے دور کے اہم ترین سوال سے نہیں بھاگ سکتے: اب گھاس کون کھائے گا؟ ہمارے حکمران گھاس رضاکارانہ طور پر کھائیں گے یا آپ انہیں زبردستی کھلائیں گے؟
حکمرانوں میں سب ہی شامل ہیں ۔۔۔ سیاسی پارٹیاں، فوجی، جج، صحافی، دانشور، تاجر، صنعت کار، زمیندار، وڈیرے (کسی کا نام بھول گیا اس کا نام آپ خود یہاں لکھ دیں)۔ اب وقت آگیا ہے کہ “گھاس کون کھائیگا” کی جگہ پوچھا جائے “گھاس کون کھلائے گا“۔ یاد رہے کہ اسی بھٹو نے بنگلادیش کو تسلیم کرنے اور شملہ معاہدے کے خلاف جماعت اسلامی کی تحریک کے جواب میں کہا تھا “تو پھر کیوں کہتے ہو کہ مہنگائی ہوگئی“۔
بھٹو اچھی طرح جانتا تھا کہ مسلسل جنگ، پڑوسیوں سے لڑائی کے نتائج عوام کے لئے اچھے نہیں نکلیں گے۔ یہ اسی عوام کا ذکر ہے جسے بھٹو صاحب نے طاقت کا سرچشمہ قرار دیا تھا۔ بھول تو نہیں گئے کہ “بنگلادیش نامنظور” اور “کرش انڈیا” مہم جماعت اسلامی نے ہی چلائی تھی۔ وہ آج اپنے کئے کے نتائج پر سوچنے کے بجائے احتجاج کر رہی ہے۔
آخری بات اگر آپ ان خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کی کوشس کریں گے تو آپ پر پہلا الزام ملک دشمنی، یا غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا لگایا جائے گا۔ لیکن آپ کے لئے سوال ایک ہی ہے “گھاس خود کھانی ہے یا حکمرانوں کو کھلانی ہے
” گھاس کھلاؤتحریک 31 اگست 2023 بقلم: جنگی قیدی خواب ہمارے جنگی قیدی، جن پر فاتح تھوک رہے ہیں؛
سندھی سے ترجمہ خواب اسانجا جنگي قيدي، جن تي فاتح ٿوڪارن ٿا خواب هجن آزاد تہ ٻيو ڇا گهرجي. شيخ اياز