چاند کے بعد اب بھارت نے سولر مشن بھی لانچ کر دیا

چاند پر قدم رکھنے کے بعد بھارت کی نظریں اب سورج پر ہیں۔ بھارت نے آدتیہ ایل ون نامی اپنا اولین سولر مشن کامیابی سے شروع کر دیا ہے۔ گزشتہ ماہ بھارت روس کو پیچھے چھوڑتے ہوئے چاند کے جنوبی قطب پر پہنچنے والا دنیا کا پہلا ملک بن چکا ہے۔

بھارت نے چاند پر کامیابی سے قدم رکھنے کے بعد اب اپنا رخ سورج کی طرف موڑ دیا ہے۔ آج بھارت کی جانب سے سورج کا مشاہدہ کرنے کے لیے آدتیہ ایل ون نامی اپنی پہلی مہم کا آغاز کر دیا ہے۔

آدتیہ ایل ون سورج کی بیرونی تہوں کا مشاہدہ کرنے کے لیے سائنسی آلات سے لیس ہے۔ اس مشن کا مقصد سورج کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنا ہے۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن نے جنوبی بھارت کی ریاست آندھرا پردیش کے ستیش دھون اسپیس سینٹر میں ہونے والے خلائی جہاز کے اس لانچ کا ایک لنک ٹوئٹ کیا۔

ہندی زبان میں آدتیہ کے معنی سورج ہیں اور اسی لیے آج صبح شروع ہونے والے اس مشن آدتیہ رکھا گیا ہے۔ یہ جہاز خلا میں ایک نام نہاد لگرینج پوائنٹ کی طرف چار ماہ سے زائد عرصے تک تقریباً 1.5 ملین کلومیٹر کا سفر طے کرے گا۔

سومک رائے چودھری، جو کہ اس مشن کی آبزرویٹری کے کچھ حصوں کی ڈویلپمنٹ میں شامل تھے، کا کہنا ہے کہ آدتیہ ایل ون میں سائنسی دنیا میں انقلاب لانے کی صلاحیت موجود ہے۔ یاد رہے کہ سنہ1960 میں ناسا کے خلائی مشن سے لے کر یو ایس اینڈ یورپین اسپیس ایجنسی نے نظام شمسی کو سمجھنے کے لیے کئی مشن بھیجے ہیں تاہم، اگر یہ بھارتی مشن کامیاب ہو جاتا ہے تو کسی بھی ایشیائی ملک کا پہلا مشن ہو گا جسے شمسی مدار تک رسائی حاصل ہو گی۔

رائے چودھری نے بھارتی ٹیلی وژن چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ اس مشن کے ذریعے جن جن اہم چیزوں کا مطالعہ کیا جائے گا ان میں سے ایک کورونل ماس ایجیکشن ہے۔ یہ ایک متواتر رجحان ہے جس میں سورج کے ماحول سے بڑے پیمانے پر پلازما اور مقناطیسی توانائی کا اخراج ہوتا ہے۔ اس توانائی کے اخراج کا کچھ حصہ اس قدر طاقت ور ہوسکتا ہے کہ یہ زمین تک پہنچنے اور مصنوعی سیاروں میں خلل ڈالنے کے لیے کافی ہے۔

رائے کے مطابق آدتیہ ایل ون کی مدد سے توانائی کے اخراج کی پیشن گوئی کرنے میں مدد ملے گی اور سب کو خبردار کیا جاسکے گا اور سیٹلائٹس کو نقصان سے بچانے میں مدد مل سکے گی۔

انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ارتھ اینڈ اسپیس سائنسز کے شعبہ خلائی سائنس اور ٹیکنالوجی کے سربراہ راما راؤ ندامنوری نے کہا کہ زمین کا نچلا مدار بہت زیادہ آلودہ ہو چکا ہے اور اس لیے یہ سمجھنا کہ وہاں سیٹلائٹس کی حفاظت کیسے کی جائے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن کے سائنسدانوں نے کہا کہ طویل مدت میں اس مشن کا ڈیٹا زمین کے آب وہوا اور نظام شمسی میں توانائی کے اخراج بہتر طور پر سمجھنے میں معاون ثابت ہوگا۔

dw.com/urdu

Comments are closed.