بحریہ ٹاون راولپنڈی اسلام آباد نا مکمل ہونے والا منصوبہ

بصیر نوید

پاکستان میں ایک ہی شخص ایسا ہے جس پر نہ کوئی تنقید ہوتی نہ ہی میڈیا میں اسکے بارے میں کچھ شائع ہوسکتا، اگر قتل کے مقدمات بھی بن جائیں تو خبر نہیں آسکتی نہ گرفتاری ہوسکتی ہے۔ اس ملک میں وزیر اعظم، صدر، آرمی کے سربراہ اور چیف جسٹس پر تنقید ہوسکتی ہے۔آرمی کے سربراہ کو میر جعفر اور میر صادق کا لقب دیا تو جاسکتا ہے چیف جسٹس کو اپنی ساس کے حوالے سے طعنے دیئے جاسکتے ہیں مگر مذکورہ شخصیت کے بارے کچھ کہنا حرام گردانا جاتا ہے۔ یہ شخصیت اتنی مضبوط ہے کہ اس نے دو عدد بہتے دریاؤں کو بھی اپنی رہائشی اسکیم بحریہ ٹاون راولپنڈی اسلام آباد میں ہڑپ کرگیا۔

اپنے ایک سابقہ آرٹیکل میں، میں نے کراچی بحریہ ٹاون کی تعمیر، پورےسندھ میں قبضہ گیری، سندھیوں بلوچوں کے قدیم گوٹھوں کو مسمار کرنے کیلئے سندھ گورنمنٹ کی پشت پناہی، سپریم کورٹ کے ججوں سے جوڑ توڑ کرنا، میڈیا اخبارات و چینلز کو اپنے لئے استعمال کرناوغیرہ وغیرہ شامل تھا بیان کیا۔ اس کے بعد مجھ سے بحریہ ٹاون راولپنڈی اسلام آباد کے بہت سارے متاثرین اور رہائشیوں نے رابطہ کرکے انکی پریشانیوں اور دھوکے باذیوں کی شکایات کا پلندہ کھول د یا متاثرین نے اعلیٰ عدالتوں، میڈیا ہاوسز، صحافیوں، خاص کر اینکر پرسنز کی بھی چالاکیوں کا ذکر کیا جو بحریہ ٹاون کے مالکان کے در پر آنکھیں بچھائے رکھتے ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا کہ میں بحریہ ٹاون کے متاثرین کی آواز کو جہاں تک میری کوشش ہوگی پھیلاؤں گا۔

بحریہ ٹاون اسلام آباد کا ماسٹر پلان 2001 مین منظور کیا گیا تھا لیکن اس نےمجوزہ زمینوں پر پہلے ہی سے قبضے کرنا شروع کردئیے تھے اور جن لوگوں نے اپنی زمینیں دینے سے انکار کیا انکو مارا پیٹا اور قتل بھی کیا گیا۔ ملک ریاض پر نصف درجن کے قریب لوگوں کو قتل کرنے کے مقدمات ہیں لیکن مجال ہے کبھی کسی کی ہمت ہوئی کہ اس سے کوئی تفتیش کی گئی ہو۔ 2001 کے ماسٹر پلان میں کہیں دریاؤں کو بحریہ ٹاون کے پروجیکٹ میں شامل نہیں کیا گیا تھا نہ ہی کوئی نئی ترمیمی درخواست کے ذریعہ ایسی درخواست کی گئی ہو۔ مگر ملک کی گھمبیر سیاسی صورت حال اور سیاسی جماعتوں و اسٹیبلشمنٹ کے مابین لڑائیوں اور میڈیا ہاؤسز کی جانب سےسیاست کو ہردم گرم رکھنے اور ایسے میں حکومتوں کی کمزور ترین پوزیشن کو بھانپتے ہوئے بحریہ ٹاون کے فیز ایک سے لیکر فیز نو کے ساتھ ساتھ بہنے والے دو دریاوں سون اور کورنگ کے اندر تعمیرات شروع کردی۔

اس ضمن میں فیز تھری کے رہائشی محمد عارف ایڈووکیٹ نے 25 جون 2023 کو چیئرمین راولپنڈی ڈیو یلپمنٹ اتھارٹی، چئیرمین کیپیٹل ڈیویلپمنٹ اتھارٹی اسلام آباد سمیت مختلف حکام کو ایک مراسلہ لکھا جسے انہوں نے ارجنٹ اور اہم ترین قرار دیتے ہوئے دریاؤں پر قبضے کو انتہائی خطرناک، غیر انسانی، قوائد و ضوابط کی خلاف ورزی اور ان دریاوں کے ساتھ ساتھ رہنے والےلوگوں کے بنیادی حقوق کے لئے خطرناک ٹھرایا ہے۔ جن خطروں کا انہوں نے ذکر کیا ان میں بارشوں کے پانی کے بہاؤ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا، سبزہ کا ختم ہونا،جھاڑیاں درخت اور پودوں کا اجڑنا، پرندوں کو ماحولیات سے نکال باہر کرنا، اور نتیجے میں موسم کے تھپیڑوں کے حوالے کرنا ہے۔

آج تک کسی بھی ادارے کی طرف سے کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور نہ ہی مراسلہ کا جواب دیا گیا۔ یوں بحریہ ٹاون کو کھلی اجازت حاصل ہوگئی کہ اسےآزادی حاصل ہے کہ وہ دریاؤں کے اندر جتنا چاہے قبضہ کرسکتا ہے۔ وہاں کے رہائشیوں کے مطابق بحریہ ٹاون نے سون دریا اور کورانگ دریاؤں کے اندر تقریباً 15 سے 20 کلومیٹر تک قبضہ کرکے اپارٹمنس بنالئے ہیں جن کی تعداد ایک درجن سے زائد بتائی جاتی ہیں۔ یہ اپارٹمنٹس دریاوں کے اندر ان جگہوں پر تعمیر کئے گئے جہاں اونچائی ہوتی ہے اور پانی کا بہاو کم ہونے سے خشک جگہ بن جاتی ہے۔

رہائشیوں نے جن کی تعداد تین لاکھ ہے گذشتہ کئی سالوں سے بحریہ ٹاون، راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور سی ڈی اےسمیت تمام متعلقہ سرکاری اداروں کو اطراف کی بے شمار زمینوں پر جن میں جنگلات اور شاملات ہیں جارحانہ قبضوں کی بار بار شکایات کی ہے۔ لیکن کوئی سرکاری ادارہ ان شکایات کی طرف توجہ دینے کو تیار نہیں۔

عدلیہ خاص کر ججوں کی بحریہ ٹاون کے مالکان پر خصوصی نظر کرم رہی ہے اسکا اندازہ اسلام ہائی کورٹ میں بحریہ ٹاون ریذیڈنٹس ایسوسی ایشن کی جنوری 2013 میں (یعنی آج سے پونے گیارہ سال پہلے) دائر ایک پٹیشن سے لگایا جاسکتا ہے جو ایسوسی ایشن کے اس وقت کے صدر ریٹائرد کرنل سلیم اختر نے داخل کی تھی، جس میں ایسوسی ایشن نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ سی ڈی اے اور بحریہ ٹاون پرائیویٹ لمیٹڈ کو ہدایت کی جائے کہ وہ منظور شدہ ماسٹر پلان میں جو رہائشیوں کیلئے درج پارک، کھیلوں کے گراونڈ، اسکولز، کمیونٹی بلڈنگز،مساجد، قبرستان کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا ہے اس پر مکمل عمل کرایا جائے۔

اس درخواست کو پونے گیارہ سال گذر گئے لیکن عدلیہ کی مہربانیاں ہیں کہ کم نہیں ہورہی ہیں۔البتہ سی ڈی اے کے ڈپٹی ڈاریکٹر اعجاز احمد نے 28 مئی 2013 کو ریاض ملک اور سی دی اے کےپلاننگ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو خط لکھا جس کی نقل سی ڈی اے کے چئیرمین کو بھی بھیجی۔ مجال ہے کسی نے اس پر عمل کیا ہو۔ اس لیٹر میں ڈپٹی ڈائریکٹر اعجاز احمد نے ان تمام پارکس، کھیلوں کے گراونڈ، اسکولز، مساجد، قبرستانوں اور کمیونٹی بلڈنگز سے متعلق ایک لمبی فہرست دی جن پر قبضہ کرکے انہیں کمرشل پلاٹس میں تبدیل کردیا گیا ہے۔۔پورے دس سال گذر گئے اور 7 ہزار کینال پر مشتمل رفاحی پلاٹس اور جنگلات و شاملات کو تجارتی مقاصد کے پلاٹس میں تبدیل کرنے پر کسی کو کوئی اعتراض ہوا ہی نہیں ہے۔ سی ڈی اے اور راولپنڈی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے دس سال سے بحریہ ٹاون میں تعمیر شدہ فیزز کا کمپلیشن سرٹیفیکیٹ نہیں دیا ہے۔ اگر یہ سرٹیفیکیٹ دیدیا جاتا ہے تو بحریہ ٹاون کو ماسٹر پلان کے تحت تمام سہولیات رہائشیوں کو فراہم کرنا پڑتی ہیں اور پورے ٹاون کا انتظام پھر وہاں کے آباد لوگوں کی ایسوسی ایشن کے حوالے کرنا ہوتے ہیں جو پانی فراہمی سیوریج سسٹم کا انتظام، صفائی ستھرائی وغیرہ کے معاملات سبنھالنے ہوتے ہیں ۔

مگر بحریہ ٹاون نے یہ تمام سہولیات تو مکمل فراہم نہیں کئے البتہ فی گھر ہر ماہ دس ہزار روپے وصول کئے، اب تو یہ رقم بہت زیادہ بڑھا دی گئی ہے۔اپ اندازہ لگالیں کہ 50 ہزار گھر سے ہر ماہ 15 ہزار روپے وصول کرتا ہے علاوہ ازین خالی پلاٹوں سے بھی دس ہزار روپے فیس لئے جاتے ہیں جبکہ پورے ٹاون میں استعمال کے لیے پانی نہیں ملتا اشتہارات میں اور فارمز میں بتایاگیا تھا کہ خوبصورت جھیلیں بنائی جائیں گی اور میٹھے پانی کا وافر انتطام ہوگا۔ تاہم زیر زمین پانی کا استعمال جگہ جگہ کنویں کھود کر 2001 سے فراہم کیا جارہا ہے۔ تعمیرات میں بے انتہا پانی استعمال ہونےکے باعث انڈر گراونڈ پانی کی سطح انتہائی کم ہوگئی ہے۔

اس وقت بحریہ ٹاون کیخلاف اتنی شکایات جمع ہوگئی ہیں کہ انکا سنبھالنا مشکل ہوگیا اس کیلئے اگلی قسط بھی لکھنا پڑے گا۔ میرے لئے اتنی حیران کن بات ہے کہ بحریہ تاون راولپندی اسلام آباد درجنوں شکایات اسلام اباد ہائی کورٹ سے لیکر نچلی عدالتوں سمیت راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی، اسلام آباد ڈیویلوپمنٹ اتھارٹی، اور سی ڈی اے وغیرہ کو پہنچائی گئی ہیں جن میں وزرا کو پہنچائی جانے والی عرضیاں بھی شامل ہیں۔ ہم تو ابھی تک سمجھتے رہے کہ پاکستان آرمی کا سربراہ سب رہنے ے طاقتور ہوتا ہے اس کے بعد سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے سربراہان طاقتور ہوتے ہین مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ سب طاقتور عہدیدار کو بحریہ ٹاون کے مالکان کے گھر پانی بھرتے ہیں۔

One Comment