حماس نے ایک نئے انسانی المیے کو جنم دے دیا ہے

سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کیا ۔ جس میں ایک ہزار سے زائد افراد ،جن میں بچے اور بوڑھے بھی شامل ہیں کو ذبح کیا گیا۔اس حملے نے ایک نئے انسانی المیے کو جنم دیاہے۔

کہا جارہا ہے کہ یہ اسرائیل پر اب تک ہونے والے حملوں میں سب سے بڑا حملہ ہے۔ اس حملے کی جو تفصیلات آرہی ہیں اس کے مطابق حماس کے جنگجوؤں نے ظلم و بربریت کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور بچوں سمیت نوجوانوں کو بے دردی سے ذبح کیا گیا ہے اور خواتین اور مردوں کے کپڑے اتار کر انھیں گلیوں میں گھیسٹا گیا ہے۔ حماس سے بارڈر پر اسرائیل کے سرحدی شہروں پر بیک وقت حملہ کیا۔ ایک حملہ اسرائیل کے سرحدی علاقے میں جاری میوزک فیسٹیول پر کیا گیا جہاں پر کسی شخص کو زندہ نہیں چھوڑا گیا ۔

یاد رہے کہ حماس ایک مذہبی تنظیم ہے جس کے مقاصد میں اسرائیل کے خاتمے کے ساتھ ساتھ دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا اور شریعت پر مبنی نظام قائم کرنا ہے۔

جواباً اسرائیل نے بھی حملے کا آغاز کیا ہے۔ اسرائیل نے غزہ کوجانے والی تمام سپلائز پر پابندی لگادی ہے۔ حماس کے جنگجو ، دہشت گردی کی کاروائیاں کرکے سکول، ہسپتال اور کمیونٹی سنٹرز میں پناہ لیتے ہیں اور عوام کو بطور انسانی ڈھال کے استعمال کرتے ہیں۔ اور نتیجتاً جب ان پر بمباری ہوتی ہے تو عوام بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ غزہ کی پٹی میں عام فلسطینی کی زندگی جہنم بن چکی ہے۔ غزہ کے عوام اپنی قیادت کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں جو اپنی سیاست اور مفادات کے لیے ہر تین چار سال بعد اسرائیل پر حملہ کرکے دنیا بھر سے ہمدردی کے نام پر فنڈز اکٹھا کرتی ہے۔ جس کا فائدہ غزہ پر قابض قوتیں ہی اٹھاتی ہیں۔

جیسے پاکستانی عوام کو ریاستی اداروں نے یرغمال بنارکھا ہے ۔ کبھی کشمیر کے نام پر اور کبھی ہندوستان دشمنی کے نام پر مہم جوئیوں کے پردے میں تمام وسائل پر قبضہ کیے ہوئے ہیں ۔بعینہ اسی طرح فلسطینی عوام کو بھی ان پر قابض انتہا پسندقوتوں نے یرغمال بنا رکھا ہے اور اپنی سیاست اور مفادات کے لیے انہیں جنگ میں جھونک دیتی ہیں۔

اسرائیلی صحافی میڈیا (نیشنل پبلک ریڈیو ) سے بات کرتے ہوئے بتا رہا تھا کہ جیسے اسرائیل میں شہریوں کی ایک بڑی تعداد نیتن یاہو کی پالیسیوں سے اختلاف کرتی ہے اس کے خلاف احتجاج کرتی ہے بعینہ اسی طرح غزہ کی عوام بھی حماس سے بہت تنگ ہے ۔ جو بھی اس کی پالیسیوں سے اختلاف کرتا ہے وہ مسنگ پرسن بن جاتا ہے۔

اب پلوں کے نیچے سے کافی پانی بہہ چکا ہے۔ فلسطینوں کی نئی نسل وطن کے حصول سے زیادہ اچھی زندگی جینا چاہتی ہے۔ لیکن ان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ان کے حکمرانوں کے علاوہ لیفٹ اور رائٹ کے دانشور بھی ہیں جوانھیں ہمہ وقت یاد دلاتے رہتے ہیں کہ اسرائیل نے تمھیں غلام بنا رکھا ہے۔

بہرحال اب یہ جنگ لمبی چلے گی۔ حماس کی حالیہ کاروائی سے وہ رہی سہی بین الاقوامی حمایت سے محروم ہوچکا ہے۔ ماضی میں یورپی اقوام فلسطینی عوام کی حمایت میں پیش پیش ہوتی تھیں لیکن اس دفعہ تمام یورپی ممالک نے حماس کے حملے کی شدید مذمت کی ہے۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے اب حماس کی قیادت کا خاتمہ کرکے ہی دم لیا جائے گا اور اس مقصد کے لیے بیرون ملک، مصر ، شام اور لبنان میں جتنے دہشت گرد عناصر ہیں ان کا خاتمہ ضروری ہے۔ یاد رہے کہ ایران نے کئی دہائیوں سے شام، بیروت اور فلسطین میں اپنی پراکسی قائم رکھے ہوئے ہے جو وقتا فوقتا دہشت گردی کی کاروائیاں کرتے رہتی ہیں۔

Comments are closed.