ارتقاء سے ہی ترقی اور بقاء مشروط ہے


پائندخان خروٹی

سیانے کہتے ہیں اور سچ ہی کہتے ہیں کہ فطرت کے قوانین انسانی کی ذاتی خواہشات کے تابع نہیں ہیں۔ وہ سائنسی اصولوں کی بنیاد پر آگے بڑھتے رہتے ہیں۔ ارتقاء کوئی تصور نہیں بلکہ ٹھوس حقیقت ہے۔ ارتقاء کا اصول بیان کرنے یا اس کی نشاندہی کرنے والے کسی بھی شخص سے علمی اور عقلی بنیادوں پر اختلاف رائے ہو سکتا ہے لیکن ارتقاء کے فطری وجود سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے یونانی فلاسفر ہیریکلائٹس نے بجا فرمایا ہے کہ تغیر یا تبدیلی فطرت کا قانون ہے گویا دنیا میں کوئی چیز جامد نہیں رہتی۔ حیوانات ہو یا نباتات، جمادات ہو یا انسانی خیالات، سب کے سب ارتقاء پذیر ہیں۔

ارتقاء کے عمل کا ایک اہم سبب یہ بھی ہے کہ ایک دوسرے کی رائے کا احترام کی جائے اور اختلاف رائے کے بنیادی حق کو قبول کرتے ہوئے رواداری کو فروغ دیا جائے اس کے بغیر انسانی معاشرے کی ترقی تو کجا ، اس کی بقا بھی ممکن نہیں۔ واضح رہے کہ کسی طاقتور کی سختی سے یا کسی کمزور کی معافی سے ارتقاء کا سفر ہرگز نہیں رکتا۔ تاریخ انسانی میں علم اور سائنس کی مخالفت کرنے والے مختلف مراحل پر ماضی میں سامنے آتے رہے اور آئندہ بھی آئیں گے لیکن تاریخ کا سفر ہمیشہ آگے جاری رہا، ترقی کا عمل آگے کی طرف بڑھتا رہا، سائنس و فلسفہ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے والے عبرت کے نشان بنتے رہے، انسانی عقل کی بالادستی قائم کرنے والے سرخرو ہوتے رہے اور آج ارتقاء کے ان مخالفین یا عورت کو برابر کا انسان تسلیم نہ کرنے والے یا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی دشمنی میں کھڑے ہونے والوں کا کوئی نام لیوا نہیں۔

تعلیمی ادارو اور تحقیقی مراکز کا اہم فریضہ ہے کہ وہ معاشرہ کو تخلیقی اور تنقیدی اذہان فراہم کریں۔ یہاں ہر ذی فہیم شخص کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق تو حاصل ہے مگر اپنی رائے دوسروں پر مسلط کرنے جنونیت کے زمرے میں آتا ہے۔

Comments are closed.