لندن میں جاری بین الاقوامی فلم فیسٹیول میں ملالہ یوسفزئی پر بنائی گئی دستاویزی فلم کے یورپی پریمیئر کا اہتمام کیا گیا۔ پاکستانی طالبہ ملالہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اُسے کم عمری میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔
ملالہ یوسفزئی پر بنائی گئی دستاویزی فلم کا نام ’ہی نیمڈ می ملالہ‘ ہے۔ ہفتہ دس اکتوبر کی شام اس دستاویزی فلم کے یورپی پریمیئر کے موقع پر فیسٹیول ہال میں ہر کوئی ملالہ کا مداح تھا۔ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ہالی وُڈ کی نامور اداکارہ میریل اسٹرِیپ کا کہنا تھا کہ ملالہ حقیقت میں بیسویں صدی کے اوائل میں برطانیہ میں خواتین کے حقوق کے لیے چلائی جانے والی تحریک ’سفراجیٹس‘ کا تسلسل ہے۔ پریمیئر کے موقع پر میریل اسٹرِیپ بھی ملالہ یوسفزئی کے لیے مسلسل نیک جذبات کا اظہار کرتی رہیں۔
لندن فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی اس دستاویزی فلم کی عکاسی گزشتہ اٹھارہ مہینوں پر محیط تھی۔ اس فلم کے لیے برطانیہ، کینیا، نائجیریا، ابوظہبی اور اردن میں مختلف مقامات پر شوٹنگ کی گئی۔ اس فلم کو تخلیق کرنے والے امریکی ڈیوڈ گوگن ہائم ہیں۔ اس فلم میں ملالہ کے والد نے واضح کیا کہ انہوں نے اپنی بیٹی کا نام پشتون تاریخ کی ایک باوقار خاتون ملالئی کے نام پر رکھا۔ ملالئی کا تعلق میوند کے علاقے سے تھا اور وہ سن 1880ء میں برطانوی فوج کے سامنے سر اٹھا کر کھڑی ہو گئی تھیں۔
فلم میں ملالہ نے اپنے نام کے حوالے سے بتایا کہ جب وہ چھوٹی تھی تو کئی لوگ اس کے والد کو اس کا نام تبدیل کرنے کا مشورہ دیتے تھے کیونکہ انہیں یہ نام زیادہ پسند نہیں آتا تھا لیکن ملالہ کے والد اسی نام پر ڈٹے رہے اور وہ ہمیشہ کہتے کہ اس نام کا مطلب بہادری ہے۔ اس فلم میں ملالہ یوسفزئی کو وسطی انگلینڈ کے شہر برمنگھم میں رہائش پذیر اس کے سارے خاندان کے ہمراہ دکھایا گیا ہے۔
فلم میں ملالہ کو کئی مقامات پر مختلف انداز میں دکھایا گیا ہے۔ برمنگھم میں اسکول جانے سے لے کر امریکی شہر نیویارک کے ایک مہاجر کیمپ تک
ملالہ کو گھر میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر بھائیوں اٹل اور خوشحال کے ساتھ ہلکے پھلکے انداز میں جھگڑا کرتے ہوئے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ ملالہ کے ایک بھائی اٹل کا کہنا ہے کہ ساری دنیا میں وہ انسانی حقوق کی بات کرتی پھرتی ہے لیکن گھر میں وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ لڑائی کے دوران اپنا غصہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
اس فلم میں ملالہ کو کئی مقامات پر مختلف انداز میں دکھایا گیا ہے۔ برمنگھم میں اسکول جانے سے لے کر امریکی شہر نیویارک کے ایک مہاجر کیمپ تک۔ ہر مقام پر نوجوان ملالہ بچوں اور خاص طور پر لڑکیوں کے لیے تعلیم کی اہمیت اجاگر کرنے کا پیغام دیتی دکھائی دیتی ہے۔
ملالہ کا کہنا ہے کہ ایک بچہ، ایک استاد، ایک کتاب اور ایک قلم ساری دنیا کو تبدیل کر دینے کے لیے کافی ہے۔ پاکستان میں ملالہ کے آبائی علاقے سوات کو بھی فلم میں دکھایا گیا ہے۔ گوگن ہائم نے اس دستاویزی فلم میں زخمی ہونے کے بعد ملالہ کے ایک برطانوی ہسپتال میں گزرے ایام کو بھی شامل کیا ہے۔ ملالہ کو سوات میں سن 2012 میں طالبان نے ایک حملے میں زخمی کر دیا تھا۔
لندن کے فلمی میلے میں اپنی شخصیت پر بنائی گئی اس دستاویزی فلم کے دوران ملالہ کا رویہ انتہائی عام لڑکیوں جیسا تھا۔ وہ مشہور امریکی اداکار بریڈ پِٹ کی تصاویر دیکھنے کے علاوہ برازیل کے ناول نگار پاؤلو کولیو کے ناول ’دی الکیمِسٹ‘ کو اٹھا کر کچھ دیر کے لیے اس کی ورق گردانی بھی کرتی رہی۔
ڈوئچے ویلے