ہر کولیس۔۔۔ ایک یونانی کہانی

hercules-clip-art-hercules002ہرکولیس۔۔ایک یونانی کہانی

سبط حسن

پرانے زمانے کی بات ہے ، ایک ملک میں ایک بہت ہی طاقتورانسان رہتاتھا۔ اس کا نام ہرکولیس تھا۔ وہ بچپن ہی سے بہت مضبوط اور توانا تھا۔ لوگ اس کے ننھے سے جسم میں طاقتورپٹھے دیکھتے تو کہتے کہ یہ بچہ بڑا ہو کو بہت ہی طاقتور شخص بنے گا۔ایک رات وہ اور اس کا بھائی گھر سے باہر سورہے تھے۔ دو بڑے ناگ، پھنکارتے ہوئے ان دونوں کی طرف آئے۔ ان کی پھنکار سے دونوں بھائیوں کی آنکھ کھل گئی۔ہرکولیس کے بھائی نے جو اتنا بڑا سانپ دیکھاتو وہ چلاّنے لگا۔ ہر کولیس نے سانپ دیکھے تو وہ اٹھ بیٹھا۔ وہ بالکل بھی نہ گھبرایا۔ جب سانپ، ان دونوں بھائیوں کے قریب آئے اور ان پر حملہ کرنے لگے ، تو ہرکولیس نے جھٹ سے دونوں سانپوں کو ان کی گردنوں سے پکڑلیا۔ ہرکولیس کے ہاتھوں میں اس قدر طاقت تھی کہ اس نے دونوں سانپوں کی گردنوں کو مسل دیا۔

ہرکولیس جب جوان ہوگیا تو اس کی بہادری کے چرچے ہونے لگے۔ اس بات کی خبر بادشاہ کو بھی ہوگئی۔ بادشاہ نے ہرکولیس کو بلوابھیجا۔ جب ہرکولیس بادشاہ کے دربار میں پہنچا تو بادشاہ اس کے جسم کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ عام لوگوں سے کہیں زیادہ لمبا قد ، عام لوگوں کی ٹانگوں سے زیادہ موٹے بازو دھڑ اتنا بڑا کہ کسی طورایک بڑے بھینسے کی چھاتی سے کم نہ ہوگا اور پیٹ کا نام ونشان نہ تھا۔ پورا جسم مضبوط پٹھوں سے بھرا ہو اتھا۔ بادشاہ ہرکولیس کے جسم کو دیکھ کر حیران رہ گیا۔ پھر بھی اس نے ہرکولیس کی طاقت کو پرکھنے کے لیے ایک موٹاتازہ بپھراہوا سانڈمنگوایا ۔

اس نے ہرکولیس سے فرمائش کی کہ وہ سانڈ کو سینگوں سے پکڑ کر گرادے تو وہ اس کی طاقت کو مان لے گا۔ ہر کولیس نے سانڈ کو سینگوں سے پکڑنے کی کوشش کی مگر سانڈ نے ایسی ٹکر ماری کہ ہرکولیس دورجاگرا۔ ہر کولیس کو بازو پرچوٹ لگی مگر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ ہرکولیس محل کی ایک دیوار کے ساتھ کھڑا ہو گیا۔ سانڈ دوڑتاہوا ، ہرکولیس کی جانب بڑھا۔ جونہی سانڈ ہرکولیس کو ٹکرمارنے لگا، ہرکولیس نے سانڈ کو اس کے سینگوں سے پکڑ لیا۔ سانڈ نے بڑی کوشش کی مگر ہرکولیس نے اپنی کمر دیوار کے ساتھ لگا رکھی تھی۔ اس نے اپنی پوری طاقت لگا کر سانڈ کو اپنی اگلی ٹانگوں پر جھکنے پر مجبور کردیا۔سانڈ کا پورا بدن کانپ رہا تھا اور اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ یہ دیکھ کر لوگوں نے ہرکولیس کے حق میں نعرے لگاناشروع کردیے۔ بادشاہ بھی ہرکولیس کی طاقت دیکھ کر خوش ہونے سے زیادہ حیران رہ گیا۔

بادشاہ نے ہرکولیس کو اپنے ساتھ کھانے کی دعوت دی۔ کھانے کے دوران بادشاہ نے ہرکولیس کو بتایا کہ اس کی سلطنت کے ایک علاقے میں ایک خونخوار شیر رہتاہے۔ شیر پہلے تو بھیڑ بکریاں اور دیگر مویشی کھاجاتاتھا، اب اس نے انسانوں کو بھی کھاناشروع کردیاہے۔ بادشاہ نے ہرکولیس سے درخواست کی کہ وہ کسی طرح اس شیر سے لوگوں کی جان چھڑا دے۔ ہرکولیس نے بادشاہ کی بات مان لی۔

اگلے روز، ہرکولیس نے اپنا سفر شروع کیا۔ کچھ دنوں میں وہ اس علاقے میں پہنچ گیا جہاں خونخوارشیر نے ظلم برپا کررکھا تھا۔ یہاں ایک بہت بڑا جنگل تھا۔ ہر کولیس نے ایک بڑے درخت کو زمین سے اکھاڑااور اس کے تنے پر لگی شاخوں کو کاٹ کر اسے ڈنڈا سابنالیا۔ ڈنڈا ہاتھ میں پکڑے ، ہرکولیس ایک راستے پر بیٹھ گیا۔ وہ شیر کا انتظارکرنے لگا۔ اس کاخیال تھا کہ جب شیر کو انسانی گوشت کی خوشبو آئے گی تو وہ ضرور اس کی طرف چلاآئے گا۔ یہی ہوا۔ تھوڑی ہی دیر میں ایک خونخوارشیر، دھاڑتاہوا ہرکولیس کی طرف چلاآرہاتھا۔ ہرکولیس نے ، شیر کے حملہ کرنے سے پہلے ہی، اپنا ڈنڈا اٹھایا اور شیر کے پیچھے بھاگنے لگا۔ شیر پہلے تورُکا مگر ہرکولیس کے ہاتھ میں بڑے درخت کا تنا دیکھ کر ڈرگیا۔ وہ سوچنے لگاکہ یقینایہ شخص اس سے زیادہ طاقتورہے____وہ جنگل کی طرف بھاگنے لگا۔ ہرکولیس اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔

شیر اس قدر ڈرگیا تھا کہ وہ اپنی جان بچانے کے لیے ایک غار میں گھس گیا۔ ہر کولیس نے اپنا ڈنڈا غارکے سامنے رکھا اور رینگتاہوا، غار میں داخل ہو گیا۔ غار میں ہرکولیس کو دیکھ کر، شیر کی تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ وہ غار کے ایک کونے میں دبک گیا ۔ ہر کولیس اس کے پاس آیا اور اس نے بڑی پھرتی سے شیر کا منہ پکڑ کراسے ایک طرف، جھٹکادے کر موڑا ۔ اس سے شیرکی گردن ٹوٹ گئی اور وہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔

ہرکولیس نے شیر کو غار سے باہر نکالا اور اسے اپنے کندھوں پر اٹھا کر بادشاہ کے پاس لے آیا۔ وہ چاہتاتھا کہ بادشاہ خود اپنی آنکھوں سے شیر کے مرجانے کی تسلی کرلے۔ شیر اس قدر بڑاتھا کہ مرجانے کے باوجود ، لوگ اس کے قریب آنے سے گھبرارہے تھے۔ بادشاہ تو اس قدر ڈرگیا کہ اس نے فوراً اسے ہرکولیس کے حوالے کرتے ہوئے، وہاں سے ہٹا دینے کا حکم دے دیا۔ ہرکولیس نے شیر کی کھال اتاردی اور اس سے ایک بڑاسا کوٹ بنوالیا ۔ یہی کوٹ وہ ہمیشہ پہننے لگا۔

ہرکولیس کی بہادری سے بادشاہ اس قدر خوش ہو ا کہ اس نے اسے ہمیشہ کے لیے اپنے پاس رکھ لیا۔ وہ اکثر ہرکولیس کو مختلف کام کرنے کے لیے کہتاجو عام لوگوں کے لیے کرنا ممکن نہ تھے۔ بادشاہ نے اسے سنہری سینگوں والے ہرن کو پکڑ کرلانے کاحکم دیا۔ ہرکولیس اس کوپکڑنے کے لیے جنگل میں گیا۔ اس نے ایک میدان میں سنہری ہرن کو گھا س چرتے ہوئے دیکھا۔ ہرکولیس ، ہرن کے پاس آیا اوراسے پکڑنے کی کوشش کی۔ ہرن بھاگنے لگا۔ ہرکولیس بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگا۔ ہرن میدانوں میں بھاگتاہوا، پہاڑیوں اور پھر بڑے بڑے پہاڑوں پر چڑھنے لگا۔ کبھی جھیلوں میں اتر جاتا اور کبھی دریاؤں میں تیرنے لگتا۔ سنہری ہرن اسی طرح قریباًایک برس بھاگتارہا۔ ہرکولیس بھی مسلسل اسے کے پیچھے بھاگتا رہا۔ آخر ایک سال کے بعد اس نے سنہری ہرن کو پکڑلیا۔

اسی طرح بادشاہ نے ہرکولیس کو ایک بڑے جنّ کو مارنے کے لیے بھیجا۔ جنّ نے پوری سلطنت میں افراتفری مچارکھی تھی۔ وہ لوگوں کی بستیوں میں چلا آتا اور بہت سے لوگوں کو کھا جاتا۔ بادشاہ نے پہلے بھی اس کو ختم کرنے کے لیے اپنی فوج بھیجی تھی۔ بہت سے فوجیوں نے جنّ کو بڑے بڑے رسّوں میں باندھ لیا۔ اسے اٹھا کر جب نیچے گرایا تو جنّ پہلے سے بھی زیادہ طاقتورہوگیا۔ ابھی ہرکولیس سے جنّ کومارنے کے بارے میں بات ہورہی تھی کہ شہر میں شور مچنے لگا ۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے ادھر اُدھر بھاگنے لگے ۔ معلوم ہو اکہ جنّ نے شہر پر حملہ کردیا ہے۔

ہرکولیس ، اس طرف بھاگا، جہاں وہ جن انسانوں کو کھا رہاتھا ۔ ہرکولیس نے جنّ کو اٹھا کر زمین پر دے مارا۔ جنّ زمین سے اٹھا تو اس کا جسم پہلے سے زیادہ بڑا ہوگیاتھا۔ہرکولیس نے اسے اٹھا کر پھر زمین پر پٹخ دیامگر جنّ پہلے سے بھی زیادہ طاقتوراوربڑا ہو گیا تھا ۔ ہرکولیس معاملہ سمجھ گیا۔ ا س نے جن کو اپنے بازوؤں پر اٹھا کر ہوا میں معلق کردیا۔ اس کا ایک ہاتھ جن کی گردن کے نیچے تھا ۔ اس نے جنّ کی گردن کو اس قدر زور سے دبادیاکہ جنّ سانس گھٹنے سے مر گیا۔

بادشاہ نے ہرکولیس کو ایک بھوت کومارنے کے لیے بھیجا ۔ اس بھوت کی چھے ٹانگیں تھیں۔ ہر کولیس نے اس بھوت کو ماردیابلکہ وہاں موجود ایسے لوگوں کا بھی خاتمہ کردیا جن کے دھڑ انسانوں جیسے تھے مگر دھڑ سے نیچے وہ بالکل گھوڑے جیسے تھے۔

بادشاہ ہرکولیس کے کارناموں پر بہت خوش تھا۔ اب وہ اسے مشکل سے مشکل کام سونپنے کاسوچنے لگا۔ ایک دن اس نے ہرکولیس کوبلوا بھیجا۔ ہرکولیس آیا تو بادشاہ اس سے کہنے لگا:’’ سمندر کے اس پارایک خوبصورت باغ ہے۔ اس باغ میں سیب کاایک درخت ہے۔ اس درخت پر سونے کے سیب لگتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تم وہاں جاؤ اور میرے لیے تین سیب لے آؤ۔ اب تک جو کوئی بھی وہاں سیب لینے کے لیے گیاہے، باغ کے پہرے دار جنّ اسے، درخت کے قریب آنے سے پہلے ہی ماردیتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تم ان جنوں کو آسانی سے مارسکتے ہو۔۔۔ کیا تم میرے لیے یہ کام کردوگے؟‘‘

ہرکولیس نے کہا کہ وہ کوشش کرے گا۔ اس نے یہ کہا اور شیر کی کھال والا کوٹ پہنا۔ہاتھ میں ایک بڑاڈنڈا اٹھایا اور سنہری سیبوں والے باغ کی طر ف چل دیا۔کئی دن چلنے کے بعد، ہر کولیس ایک دریا کے کنارے تک جاپہنچا۔ دریا کے کنارے پر کچھ خوبصورت لڑکیاں پھول چُن رہی تھیں۔ ہرکولیس ان لڑکیوں کے پاس بیٹھ گیااور ان سے باتیں کرنے لگا۔ ہرکولیس نے انھیں اپنا نام بتایا۔ وہ اس نام کو جانتی تھی۔ وہ اسے اپنے سامنے دیکھ کر بڑی خوشی ہوئیں۔ وہ اس سے پوچھنے لگیں کہ وہ کس طرف جارہاہے۔ ہر کولیس نے جواب دیا

’’میں سمندر کے پار، سنہری سیبوں والے باغ تک جارہاہوں۔ مجھے بادشاہ کے لیے تین سیب لانا ہیں۔‘‘

’’نہیں، نہیں، آپ کووہاں نہیں جانا چاہیے۔۔۔وہاں جو بھی جاتاہے، اسے ماردیا جاتاہے۔۔۔‘‘ لڑکیاں چلاّنے لگیں۔

’’میں جنوّں سے نہیں ڈرتا، ہاں البتہ مجھے اس باغ کا راستہ ٹھیک طرح سے معلوم نہیں۔۔۔ کیاتم میں سے کسی کو اس راستے کے بارے میں کچھ علم ہے۔ ‘‘ ہرکولیس نے پوچھا۔
’’
آگے، راستے پر ایک بوڑھا بیٹھا ہوگا۔۔۔ آپ اس بوڑھے کو شانوں سے پکڑ کرذراسختی سے، راستے کے بارے میں پوچھوگے ، تو وہ راستہ بتادے گا۔ اگر نرمی سے بات کی تو وہ آپ کو ٹال دے گا۔۔۔‘‘ لڑکیوں نے جواب دیا۔

ہرکولیس نے لڑکیوں کوخداحافظ کہا اور سمندر کی طرف چلنے لگا۔ ہرکولیس سمندرکے ساحل تک جاپہنچا۔ وہاں ریت پر ایک بوڑھا سورہاتھا۔ ہرکولیس نے اس بوڑھے کودیکھا۔ اسے بوڑھے کی شکل عجیب وغریب لگی۔ اس کے بازو اورٹانگیں بالکل مچھلی کی طرح کے تھے۔ اس کے کانوں میں پودوں کی شاخیں اورپتے اُگے ہوئے تھے۔ ہر کولیس نے فوراًبوڑھے کو شانوں سے پکڑ لیا۔ بوڑھا گھبرا کر اٹھ بیٹھا ۔ اس نے جب ہرکولیس کواپنے شانوں کو پکڑے دیکھا تو وہ اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ جب اس نے دیکھا کہ وہ ہرکولیس کی گرفت سے نہیں نکل سکتاتو وہ ایک دم آرام سے لیٹ گیا۔ یہ بوڑھا کسی بھی جانور کی شکل میں اپنے آپ کو بدل سکتاتھا۔ ہرکولیس نے اس کو شانوں سے پکڑاہواتھا کہ اچانک یہ بوڑھا، ایک ہرن بن گیا۔ ہر کولیس کے سامنے ایک ہرن اٹھا اور تیزی سے ایک طرف بھاگنے لگا۔ ہرکولیس نے دوڑکرہرن کو پکڑا اور اسے زمین پر لٹاکر، اسے ٹانگوں سے پکڑ لیا۔ اب یہ ہرن ایک بڑے کوّے کی صورت اختیار کرگیا۔ پھر یہی کوّا ایک کتے میں بدل گیا۔ پھر ایسا آدمی جس کے چھ ہاتھ اور چھ ٹانگیں تھیں اور آخر ایک بڑے سانپ کی صورت میں پھنکارنے لگا۔ مگر ہرکولیس نے ہر دفعہ ان سب کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔
آخر بوڑھا تھک ہار کر اپنے اصلی جسم میں واپس آگیا۔ کہنے لگا:
’’
تم کون ہو۔۔۔؟ تم کیا چاہتے ہو۔۔۔ ؟‘‘
’’
مجھے سنہر ی سیبوں والے باغ کا راستہ معلوم کرناہے۔۔۔ میرا نام ہرکولیس ہے اور میں نے اس باغ سے بادشاہ کے لیے تین سیب لے کرجانا ہیں۔۔۔‘‘ہرکولیس نے جواب دیا۔ بوڑھے نے ہرکولیس کے کارناموں کے قصے سن رکھے تھے۔ وہ سمجھ گیا کہ ہرکولیس کوچکر دینا مشکل ہوگا۔ اس نے اسے باغ کاراستہ بتادیا۔کہنے لگا


’’
تم اسی سامنے والے راستے پر چلتے جاؤ۔ وہاں اٹلس آئے گا۔ اٹلس ایک دیو ہے جس نے اپنے کاندھوں پر آسمان کواٹھا رکھا ہے ۔ جب تم اٹلس کے پاس پہنچ جاؤ تو آگے کاراستہ اسی سے پوچھ لینا۔۔۔‘‘

Comments are closed.