مہمت طاہر مجتبیٰ
ہمارے پسماندہ معاشرے میں بدقسمتی سے استاد اور شاگرد کے رشتے کی فرسودہ فیوڈل اور قدامت پسندانہ روایات ابھی تک زندہ ہیں جن کے تحت استاد کو شاگرد کے اوپر مکمل اختیار دیا جاتا ہے جس میں وہ سزا کے طور پر جسمانی و ذہنی ٹارچر کرنے کا مجاز ہوتا ہے اور اسے اپنا حق سمجھتا ہے۔ ایسی روایات بھی مشہور ہیں کہ استاد کی چھڑی کی ضرب جہاں لگے، وہاں جہنم کی آگ حرام ہو جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
ایسی روایات وہی گھڑتے ہیں جو استاد کے تشدد کو جواز بخشنا چاہتے ہیں اور اسے جاری رکھنے کے حق میں ہوتے ہیں۔ اس میں پرانے استادوں اور قدامت پسند بزرگوں (جنہوں نے مار پیٹ سے استفادہ حاصل کیا ہوتا ہے) کا بھی بڑا ہاتھ ہے جو چھتر پریڈ کے فضائل مزے لے لے کر سناتے ہیں اور کئی واقعات تو ایسے بھی سننے کو ملتے ہیں جن میں ایک کلاس میں استاد کا زیادہ تر وقت طلبہ کی دھنائی اور چھترول کرنے میں ہی گزرتا تھا اور والدین اور بزرگ بھی اسے سپورٹ کرتے تھے بلکہ سرگرم حمایتی ہوتے تھے۔
ہماری یونیورسٹی کے ایک لیب انجیئیر ایسے اساتذہ کو ”منشی“ کے نام سے یاد کرتے اور انکی عظمت کے قصے سناتے ہوئے کہتے کہ ”منشی چلے گئے اور علم اٹھ گیا“ اور وہ لوگ تھے بھی منشی، جنہیں سوٹیاں گننے میں بہت دلچسپی ہوتی تھی۔ ان اساتذہ کے خلوص پر بالکل بھی شک نہیں، وہ اپنے پیشہ وارانہ فرائض اور ذمہ داریوں میں انتہاء درجے کے مخلص ہوں گے مگر وہ ڈانگ سوٹے کو تعلیم کا حصہ سمجھتے تھے اور ان کےنزدیک سوٹی اور طالبعلم کا ایک روحانی رشتہ تھا جس کے ذریعے ایک میگنیٹک طریقے سے انکا علم سوٹی کو منتقل ہوتا جو پھر سوٹی کو واسطہ بنا کر طلبہ کو منتقل ہو جاتا اور یہ بھی”ذریعہ تعلیم“ کا ایک زبردست واسطہ تھا۔
ایک اور بدقسمتی یہ کہ، محکمہ تعلیم اور تعلیمی اداروں میں رشوت خوری، اقرباء پروری،میرٹ کی پامالی، فرسودہ نصاب، معاشرے میں سوالات اٹھانے، مکالموں، مثبت مباحثوں اور ڈائیلاگ جیسی علمی فضاء نہ ہونے اور طرح طرح کی قدغنیں موجود ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام گرتا چلا گیا۔ اس لحاظ سے پرانے دور کی تعلیم ”سنہرا دور“ سمجھا جانے لگا اور اس سے جڑی ہوئی روایات کو آج بھی قدامت پسند حلقوں میں ”روشن اقدار“ سمجھا جاتا ہے۔
اس لیے وہ ان روایات کے تسلسل پر ہی زور دیتے ہیں کہ استاد شاگرد کا مکمل طور پر مالک ہوتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ جیسا چاہے ویسا ہی سلوک کرے۔اس معاملے میں ہمیں زبردست طبقاتی تضاد نظر آتا ہے۔ او لیول، اے لیول والے طبقۂ اعلیٰ کے سکولوں میں تو تشدد کا تصور ہی نہیں۔ پھر نجی انگلش میڈیم تعلیمی ادارے وغیرہ آ جاتے ہیں، ان میں کچھ مہنگے تعلیمی ادارے ہوتے ہیں اور کچھ نسبتا سستے سکول، کالج وغیرہ ہوتے ہیں۔ مہنگے اور اونچے انگلش میڈیم سکولوں میں بھی تشدد کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے جبکہ نسبتا کم درجے کے انگریزی میڈیم سکولوں میں جسمانی تشدد کا رجحان کافی حد تک پایا جاتا ہے۔
رہ گئے سرکاری سکولوں اور مدرسوں میں پڑھنے والے طلبہ تو یہ بیچارے جاتے ہی استادوں کے غضب کا نشانہ بننے کیلئے ہیں۔ یہاں پر پھر شہروں، قصبوں اور دیہات کا فرق بھی آ جاتا ہے، جیسے جیسے فرسودہ روایات سے نکلتے جائیں یعنی شہروں اور بڑے شہروں کی طرف جاتے جائیں، تعلیمی اداروں میں تشدد کا رجحان کم ہوتا نظر آئے گا۔ جدید اور بڑے شہروں کے سرکاری سکولوں اور مدارس میں تشدد کا رجحان کافی حد تک کم ہوتا ہے جبکہ اسی نسبت سے اگر پسماندہ علاقوں کی طرف بتدریج اداروں میں آپ کو نچلے تعلیمی اداروں میں تشدد زیادہ ہوتا نظر آئے گا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ تشدد کا عنصر مدارس میں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے اور پھر سرکاری و نچلے نجی سکولوں کا درجہ بالترتیب آتا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ لڑکیوں کے سرکاری سکولوں اور مدارس میں بھی تشدد کا عنصر پایا جاتا ہے جس کے ان پر بھیانک نفسیاتی اثرات مرتب ہوتے ہیں اور طرح طرح کی پیچیدگیوں کا سبب بنتے ہیں۔ تشدد کیساتھ تعلیم ویسے بھی طلبہ کو متشدد اور اذیت پسند بنا دیتا ہے جس کے خاصے اثرات ان کی مستقبل کی پریکٹیکل لائف پر بھی مرتب ہوتے ہیں اور انہیں ان اثرات سے پیچھا چھڑانے کیلئے زندگی میں بہت تگ و دو کرنی پڑتی ہے۔
قدیم روایات کا دفاع کرتے ہوئے ایک خیال یہ تشدد کے جواز میں پیش کیا جاتا ہے کہ ڈانگ سوٹے والے منشیوں کی طلبہ کے دل میں زیادہ عزت ہوتی ہے اور ایک خصوصی تعلق محسوس کرتے ہیں لیکن جدید تحقیق میں یہ خیال کافی فرسودہ ہے۔ احترام کا تعلق استاد کے دیے ہوئے کانسیپٹس اور علم سے ہوتا ہے اور یہ تعلق بہت زیادہ مضبوط بھی ہوتا ہے۔ تشدد کے ذریعے احترام کروانے کا استدلال کچھ بے معنی سا ہے۔
تعلیم کے جدید رجحانات بہت تبدیل ہو چکے ہیں۔ استاد اور شاگرد کے روایتی تصور کی بجائے ایک ماحول میں ایک دوسرے کی معیت میں سیکھنے سکھانے کا عمل ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں روایتی ایشین کلچر کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہمارے ارد گرد کے ممالک نے ان تصورات سے تقریبا جان چھڑا لی ہے مگر ہمارے ہاں اکیسویں صدی میں بھی تشدد کا عنصر تعلیمی اداروں میں موجود ہے اور بعض حلقے مثلا مدارس کے اَستاد (الف زبر کیساتھ) اور سرکاری سکولوں کے ماشٹڑ (تفریق کیلئے اَستاد اور ماشٹر کی اصطلاح) ان تصورات سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو بھی تیار نہیں۔
یہ ضروری ہے کہ بدلتے حالات کے تقاضوں کے مطابق استاد اور شاگرد کے مقدس رشتے سے متعلق اپروچ اور جدید رجحانات اختیار کیے جائیں۔ اساتذہ بھی پڑھانے کے جدید طریقوں کے متعلق آگاہی حاصل کریں اور انہیں استعمال کریں نہ کہ بچوں کے دماغوں میں زبردستی علم انڈیلا جائے۔ اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو آج بھی ہمارے ہاں خاطر خواہ تعداد ان طالب علموں کی موجود ہے جو تشدد اور اسکول کی سختیوں کی وجہ سے پرائمری سے پہلے ہی تعلیم کوخیرباد کہہ دیتی ہے جس سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔