سبط حسن
بہت سال پہلے کی بات ہے ،یونان کے ایک گاؤں میں ایک لڑکارہتاتھا۔۔۔ بہت خوبصورت اور بہت ہی اچھے دل والا۔ اس سے زیادہ یہ کہ وہ بہت اچھا گاتاتھا۔ بانسری بجانے میں اسے کمال حاصل تھا۔ جب وہ اپنی بانسری پر کوئی دُھن چھیڑتاتوسب لوگ اپنے کام کاج چھوڑکر، بانسری کی دھنوں میں محو ہوجاتے۔ اس کے گانے میں ایسی مٹھاس تھی کہ جنگلی جانور بھی اس کے اردگرد جمع ہوجاتے۔ خونخوارجانوروں پر اس قدر اثر ہو جاتا کہ وہ اس کی موسیقی کے جادو میں محوہوکر اپنی ساری خونخواری بھول جاتے۔ یہی نہیں درخت ، پودے اور ان پر لگے پھول بھی اس کے گانے سن کر جھوم اٹھتے۔ اس جادوئی فن کار کا نام قاسم تھا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سمندر کے کنارے ، ایک امیر تاجر نے بہت بڑاجہاز بنوایا۔ جب جہاز مکمل ہو گیا تو اس کے نیچے رکھے ہوئے بڑے بڑے تختے ٹوٹ گئے۔جہاز ، ساحل کی ریت میں دھنس گیا ۔ اسے بہت سے مزدور اوربیل اکٹھے کرکے دھکیلنے کی کوشش کی گئی مگر جہاز ایک ہاتھ بھی نہ سرکا۔ آخر قاسم کو بلوایا گیا۔ قاسم نے جہاز کے لیے ایک گیت گایا ۔ اس گیت کے اشعار میں جہاز کو سمجھایا گیا تھا کہ اگر وہ ریت سے نکل کر سمندر کی لہروں میں چلا جائے تو اسے بڑا مزا آئے گا۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ گیت سُن کر جہاز نے آہستہ آہستہ سمندر کی طرف سرکنا شروع کردیا۔
ایک دفعہ قاسم اپنے ایک دوست کے ساتھ ایک گاؤں تک گیا۔ گاؤں کے کسانوں کوجب قاسم کے آنے کاعلم ہو ا تو وہ سب گاؤں کے بیچ ایک میدان میں جمع ہوگئے ۔ قاسم نے اپنی بانسری پربہت سے گیت گائے۔ لوگوں کو کھانا پینا اور کام کرنا سب کچھ بھول گیا۔وہیں ایک لڑکی نے قاسم کو دیکھا، اس کے نغمے سنے اور وہ قاسم کو پسند کرنے لگی۔ لڑکی کا نام کلثوم تھا۔ آخر قاسم اورکلثوم کی شادی ہوگئی۔ دونوں ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے، اس طرح دونوں بڑی خوشیوں کے ساتھ رہنے لگے۔
ایک رات قاسم جنگل کے بیچ بانسری بجارہاتھا ۔ اس کے ساتھ کلثوم بھی بیٹھی تھی۔ دونوں ایک بڑے پتھر پر بیٹھے تھے۔ چاروں طرف چاندنی پھیلی ہوئی تھی اور فضامیں ہلکی ہلکی خنکی تھی ۔قاسم نے ایسا نغمہ بجایا کہ پتھروں کے اندر بھی پیار کی نرمی بھر گئی۔یہ نغمہ سن کر جنگل میں بسنے والی بے شمار پریاں بھی وہاں آگئیں۔ سب مل کر نغمے پر رقص کرنے لگیں۔ جنگل کے جانو ربھی آگئے۔ سانپ اور بچھو بھی رقص کرنے لگے۔
ایساسماں بندھا کہ لگتاتھا کہ چاند بھی زمین پر اترآئے گا۔ اسی دوران کلثوم بھی پتھر سے نیچے آئی۔وہ بھی رقص کرنے لگی۔ رقص کرتے ہوئے اس کا پاؤں ایک زہریلے ناگ کے اوپر آگیا۔ ناگ نے کلثوم کے پاؤں پر ڈس لیا۔ وہ چیخی توقاسم کے ہاتھ سے بانسری نیچے گر گئی۔ قاسم نے کلثوم کواٹھایا اور گھر لے آیا۔گھر پہنچتے ہی کلثوم کی موت ہوگئی۔
قاسم کے دکھ کی کوئی حد نہ تھی۔ قاسم دکھی ہوا تو گویا اس کے پرستار، سب انسان، جانور اور پودے بھی غمگین رہنے لگے۔ قاسم کو کچھ سمجھ نہ آتاکہ وہ کیا کرے۔ آخر ایک دن اس نے اپنی بانسری اٹھائی اور گاؤں کے باہر ایک راستے پر جا بیٹھا۔ اس نے کلثوم کے لیے اپنے پیار اور پھر جدائی کاایسادردناک نغمہ چھیڑا کہ لگتاتھا کہ آسمان اور زمین پھٹ جائیں گے۔ خود اس کی آنکھوں سے درد بھرے آنسوؤں کی لڑیاں ابل رہی تھیں۔
یہ نغمہ جس کسی نے سنا، قاسم کے ساتھ جی بھر کے رویا۔ یہاں تک کہ اس درد بھرے نغمے کا اثر آسمانوں پر بیٹھے دیوی دیوتاؤں پر بھی ہوا۔ سب اکٹھے ہوگئے اور سب نے فیصلہ کیا کہ کچھ بھی ہوقاسم کو اس کی کلثوم لوٹادی جائے۔ مگر سب پریشان ہو گئے کیونکہ اب کلثوم زمین کے بہت نیچے بسی دنیا میں تھی اور یہ دنیا پلوٹو جیسے ظالم دیوتا کے ہاتھ میں تھی۔
قاسم اپنے گاؤں کے رستے سے اٹھا اور چلنے لگا۔ اس کے ساتھ پرندے، جنگلی جانور اور مویشی بھی چلنے لگے ۔ آخرکار وہ پلوٹو کی دنیا کے دروازے تک جاپہنچا۔ اس کی بانسری کی اداس دھن سن کر پلوٹو کی دنیا کے دروازے خود بخود کھل گئے۔ وہ آگے بڑھتا گیا۔ زمین کے نیچے بسی روحوں نے ایسا نغمہ، پہلے کبھی نہ سنا تھا۔ قاسم، اس پل پر جا کھڑا ہواجہاں سے روحوں کو ایک کشتی میں بٹھا کر آگے لے جایاجاتاتھا۔ اس پل سے آگے صرف مری ہوئی روحیں ہی جاسکتی تھیں۔
کشتی کو چلانے والے بوڑھے نے قاسم کی بانسری کانغمہ سنا اوروہ سب کچھ بھول گیا ۔ اس نے قاسم کو کشتی پر سوارکیااور کالے دریا کو پار کروادیا۔اب قاسم روحوں کی دنیا میں تھا۔ ایک طرف بہت سے لوگ جنھوں نے اپنی زندگی میں انسانوں کو دکھ پہنچائے تھے، سزائیں کاٹ رہے تھے۔ ان میں ایک بادشاہ بھی تھا۔ اس بادشاہ نے بہت سا ل ایک ملک پر حکومت کی تھی۔
یہ غریب کسانوں کی کمائی لوٹ لیتاتھا۔ یہی نہیں، انھیں کھانے کے لیے ضروری اناج بھی نہیں دیتا تھا۔ لوگ بھوک سے مرجاتے اور جو کوئی شکایت کرتا، اس کی کھال اتار لی جاتی۔ اس بادشاہ کو یہ سزا دی گئی تھی کہ وہ ایک بھاری پتھر اٹھا کر، ایک پہاڑی کی چوٹی تک لائے۔ بادشاہ پتھر کو اٹھاتا، بڑی مشکل سے چوٹی تک لے آتا۔ اسے چوٹی پر رکھتامگر پتھر فوراًلڑھک کرپھرسے پہاڑی کے دامن میں آگرتا۔ بادشاہ کو پھر سے پتھر اٹھانا پڑتااور اس طرح جب سے وہ اس دنیا میں آیاتھا، اسے ایک پل کے لیے آرام نہیں مل سکتاتھا۔
ایک طرف کچھ عورتیں اور مرد، ایک کنویں سے پانی نکال رہے تھے۔ یہ وہ لوگ تھے جو اپنے اردگرد بسے کمزور لوگوں کے ساتھ بدتمیزی کرتے تھے۔ وہ مسلسل کنویں سے پانی نکال رہے تھے مگر جس ڈول کو پانی نکالنے کے لیے استعمال کررہے تھے، اس میں بڑے بڑے سوراخ تھے۔
ایک شخص ایک طرف ایک چبوترے پر بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے طرح طرح کے کھانے اور پھل تھے۔ وہ ان کو کھانے کے لیے اپناہاتھ بڑھاتامگر اس کاہاتھ ان کھانوں اورپھلوں تک نہ پہنچ پاتا۔ یہ وہ شخص تھا جس نے اپنی زندگی میں خود تو بہت زیادہ کھایا مگر اپنے اردگرد بسے لوگوں کوان کی بھوک کے باوجود کچھ نہ دیاتھا۔
قاسم اپنی بانسری بجاتاہوا ، ان سب لوگوں کے درمیان سے گزررہاتھا۔
سب کومعلوم تھا کہ قاسم اپنی بیوی کلثوم کی جدائی میں یہ نغمہ گارہاہے۔ نغمے کو سن کر سب کومعلوم ہو گیاکہ کلثوم کس قدر خوبصورت تھی اور قاسم سے کتنا پیارکرتی تھی۔ سب نے روحوں کی دنیا کے دیوتاپلوٹو سے درخواست کی کہ وہ کلثوم کو زندہ کرکے قاسم کے ساتھ بھیج دے۔
پلوٹو، اپنے محل میں بیٹھا ، قاسم کے اداس نغمے سن رہاتھا۔ نغموں کی اداسی سے اس کا دل نرم پڑنے لگا۔ اسی دوران اس کی بیوی اس کے پاس آئی۔ اس کی آنکھوں میں قاسم کے لیے درد کے آنسو تھے۔ یہ دیکھ کر پلوٹو کادل اوربھی نرم ہو گیا ۔ اس نے کلثوم کوبلا بھیجا۔ کلثوم آئی تو اس سے کہنے لگا:۔
’’جاؤ ، قاسم تم سے اس قدر پیار کرتاہے کہ تمھیں اس روحوں کی دنیا میں رکھناظلم ہوگا۔ اورپھر اس کے دل کا درد کیسے نغمہ بن کرسب کے دلوں میں اتر جاتاہے۔۔۔ جاؤ، تم قاسم کے ساتھ ، اوپر کی دنیا میں چلی جاؤ۔۔۔
یہ پہلا موقع تھا جب پلوٹو نے روحوں کی دنیا میں آنے والے ایک انسان کو واپس زمین پر لوٹا دیاتھا۔ جب قاسم اور کلثوم باہر نکلنے کے لیے چلنے لگے تو پلوٹو کہنے لگا:۔
’’تم دونوں اس روحوں کی دنیا سے چلے جاؤ۔ اور سنو، قاسم، کلثوم تمھارے پیچھے پیچھے چلے گی۔ جب تک تم یہاں سے باہر کالے دریا کے پل تک نہ پہنچ جاؤ، قاسم تم مڑ کوکلثوم کونہیں دیکھو گے۔اگر تم نے ایسا کیا تو کلثوم ہمیشہ کے لیے یہیں رہ جائے گی۔۔۔‘‘
قاسم کے دل میں خوشیوں کاایک دریا امڈ پڑا۔ اس نے بانسری پر خوشیوں بھرا نغمہ چھیڑا۔ وہ چلتاجارہاتھا اور کلثوم اس کے پیچھے تھی۔ قاسم کالے دریا کے پل کے قریب تھا۔ وہاں وہی ملاح کھڑاتھا۔ وہ قاسم کو کلثوم کے ساتھ دیکھ کربہت خوش ہوا۔ قاسم پل کودیکھ کر خوش تو ہوا، مگر اس کی بے قراری بڑھ گئی۔ اسے معلوم تھا کہ پل کے اس پار دروازے سے باہر نکلتے ہی وہ اپنی دنیا میں پہنچ جائے گا۔ جہاں ہرے بھرے کھیت ہیں۔ درخت ہیں۔ خوبصورت پھلوں سے لدے ہوئے باغات ہیں۔ باغات میں خوبصورت نغمے گانے والے پرندے ہیں اور نہ جانے کیاکیا۔۔۔!
کلثوم اب تک ایک روح تھی اور اس کاانسانی جسم ، روحوں کی دنیا کے دروازوں سے نکل کر ہی واپس آناتھا۔ وہ قاسم کے پیچھے تو ضرور آرہی تھی مگر اس کے چلنے کی آہٹ ہر گز نہ ہو رہی تھی۔ قاسم میں بے قراری بڑھی اور پلوٹو کی بتائی ہوئی بات بھول گیا۔ اس نے تسلی کرنے کے لیے کہ کیا، واقعی کلثوم اس کے پیچھے آرہی ہے ، مڑ کر دیکھ لیا۔
قاسم کا مڑکردیکھنا تھا کہ کلثوم نے ایک چیخ ماری۔ اس نے اپنے دونوں بازوقاسم کی طرف بڑھائے مگر بہت دیر ہوچکی تھی۔ کلثوم واپس روحوں کی دنیا میں جاچکی تھی۔ قاسم نے بھاگ کر، کلثوم کا پیچھا کرنے کی کوشش کی مگر ملاح نے اس کا راستہ روک لیا۔قاسم سات دن اور سات راتیں ، کالے پل کے اوپر بیٹھ کر، اپنی بانسری پر اداس نغمے بجاتارہا۔ مگر کسی نے اس کے نغمے پر دھیان نہ دیا۔ آخر مایوس ہو کروہ واپس اپنی دنیا میں چلاآیا۔ کلثوم کے بغیر اس کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو رہاتھا____آخراس کی موت ہوگئی۔ اس کی روح اب روحوں کی دنیا میں ہے۔ کلثوم اورقاسم کی روحیں اب اکٹھی ، یہیں رہتی ہیں۔