قومی یکجہتی ۔۔۔ کچھ غلط فہمیوں کا ازالہ

طارق گجر

Minorities-protest

قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی ہمارے سیاسی رہنماؤں کو درپیش مسائل میں سے بنیادی مسئلہ یہ تھا کہ نسلی ،لسانی ا ور جغرافیائی طو ر پر مختلف النوع قومیتوں کو مستقبل میں کیسے اکٹھا رکھا جائے گا۔

اگرچہ پاکستان کا وجود ہی ان تین بنیادی شناختوں(نسل،زبان،جغرافیہ) کی نفی کر کے عمل میں آیا تھااور ہم نے اور ہمارے نظریاتی رہنماؤں نے ان شناختوں کے با لمقابل مذہبی شناخت کو حوالہ بنا کر اور پھر ایک اصول کے طور پر منوا کر آزادی حاصل کی تھی مگر آنے والے وقت میں ان فطری شناختوں اور ان کے زیرِ اثر پروان چڑھے جذبات و احساسات کو رد کرنا ممکن نہیں تھا،شاید یہی وجہ تھی کہ1940 میں قراردادِ لاہور میں تمام قومیتوں کے حقوق کی ضمانت دی گئی تھی ۔

بد قسمتی سے قیامِ پاکستان کے بعد قومیتی حقوق کے معاملے میں جان بوجھ کر چشم پوشی اور پہلو تہی سے کام لیا گیا۔قرارداد مقاصد کو نظریہ پاکستان کے اصولوں پر عمل داری کا نام دے کر اقلیتوں اور قومیتوں کے ان حقوق سے دوری اختیار کی گئی جن کی قراردادِ لاہور اور قائدِاعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر میں ضمانت دی گئی تھی۔

اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان کا قیام مذہبی بنیادوں پر ممکن ہوا تھا اور تحریکِ پاکستان میں بھی مذہبی جذبے نے اہم رول نبھایا تھا مگر اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پاکستان بن جانے کے بعداس میں شامل قومیتوں کی شناخت، ان کے جائز قومی تعصبات،زبان اور صدیوں پُرانے کلچر کو نئی مذہبی شناخت کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔بدقسمتی سے ایسا کرنے کی منظم کوششیں کی گئی۔

سب سے پہلے بنگالی اس کی زد میں آئے۔ بنگال متحدہ ہندوستان کا ایک بڑا صوبہ تھا۔بنگال کے عوام تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے زبان و ادب اور کلچر کے معاملے میں بھی احساسِ تفاخر رکھتے تھے۔ رابندر ناتھ ٹیگور واحد ہندوستانی تھے کہ جنہیں ادب کا نوبل انعام مل چکا تھا ۔پاکستان میں شامل ہونے والے ’’مسلم بنگال‘‘ میں بھی یہ احساس تفاخر موجود تھا اور یہ جائز تفاخر تھا ۔اس سب کے باوجود مسلم بنگال نے اسلام کے نام پر مسلما نان ہند کا ساتھ دیا اور اس کے لئے بے پایاں جدوجہد کی ۔

سانحہ مشرقی پاکستان سے ہمیں جو سیدھا سیدھا سبق ملنا چاہئے تھا وہ یہ تھا کہ اب باقی ماندہ پاکستان کو صرف مذہب کے نام پر اکٹھا نہیں رکھا جا سکتا ، اگرایسا ہو سکتا تو بنگالی ہمارے ہم مذہب ہونے کے باوجود ہم سے علیحدہ ہونے پر مجبورنہ ہوتے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مشرقی پاکستان سے ملنے والے سبق کو یاد رکھا جاتا اور باقی ماندہ قومیتوں کے معاملے میں ان غلطیوں نہ دھرایا جاتا کہ جن کا تجربہ ہم مشرقی پاکستان میں کر چکے تھے،1973،ء کا متفقہ آئین اسی سمت میں پیش رفت تھی کہ جس میں قومیتوں کے حقوق کا تعین کر دیا گیا اور تمام پارٹیوں نے اس پر دستخط بھی کر دیئے مگر اُن قوتوں نے کہ جو ملکی معاملات کو مرکز میں اپنے پاس رکھنا چاہتی تھیں (بد قسمتی سے فوج سر فہرست تھی) آئین میں قومیتوں کو ملنے والے حقوق سے پہلے ہی آئین پر شب خون مار دیا ۔

اس دور میں صوبائی حقوق کو صوبائی تعصب کا نام دے کر بہت ہی مطعون خواہش بنا کر پیش کیا گیا ، صوبائی حقوق کے علمبرداروں کو قومی یکجہتی کے خلاف کام کرنے والے ملک دشمن بنا کر دکھایا گیا اور ان کے متعلق غدار ہونے کا پراپیگنڈہ کیاگیا۔ اسی دور میں قومیتی حقوق کا زور توڑنے کے لئے مسلکی شدت پسندی کو بھی ہوا دی گئی۔ چنانچہ مسلک کے نام پر کئی دہشت پسند تنظیمیں وجود میں آگئیں۔

صوبائی حقوق کی آواز کو دبانے کے لئے پرانے ہتھیار سے کام لیا گیا، مذہب کو پھر قوم کا محافظ بنا کر پیش کیا گیا ۔ کیونکہ یہ پراپیگنڈہ اب کے فوجی حکومت کے دور میں ہوا ، جس میں غالب اکثریت پنجاب کی تھی اور اس کا سربراہ بھی پنجابی جرنیل تھااس لئے پنجاب کے خلاف نفرت پروان چڑھی، پنجاب کے سیاستدانوں، دانشوروں اور عوام نے اس نفرت کو چھوٹے صوبوں کے حقوق کی بجائے صوبائی تعصب اور ملک دشمنی پر مامور کیا ۔
اس کے علاج کے لئے وہی پرانا نسخہ آزمایا، مذہب کے نام پر اتحاد و اتفاق کا شدو مد سے پراپیگنڈہ کیا اور اپنی زبان پنجابی کے حقوق کی قربانی یہ دکھانے کے لئے دی کہ وہ دوسرے صوبوں کی طرح متعصب نہیں ہیں۔ پنجابیوں کے اس رویے نے انہیں چھوٹے صوبوں کی نظر میں اور مشکوک بنا دیا اور وہ یہ سمجھنے لگے کہ ملکی یکجہتی کے نام پر مذہب کے پراپیگنڈے اور اپنی زبان اور شناخت کی نام نہاد قربانی دراصل پنجاب کے وہ ہتھیار ہیں جن کی مدد سے وہ چھوٹے صوبوں پر اپنا تسلط قائم رکھنا چاہتا ہے ۔

اس نقطۂ نظر کا اظہار سندھی، بلوچ اور پختون دانشوروں اور ادیبوں کی جانب سے بارہا کیا جا چکا ہے ، اس ضمن میں بگٹی صاحب کا وہ واقعہ مشہور ہے جس کی راوی مشہور کالم نگار افضل توصیف ہیں۔وہ لکھتی ہیں کہ بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کے دوران ایک ملاقات میں بگٹی صاحب نے جب ایک خاتون لیکچرار سے پنجابی زبان میں بات کی تو لیکچرار نے حیران کن انداز میں پوچھا:۔

سر! آپ کو پنجابی زبان آتی ہے ؟
کیوں میں کوئی پنجابی ہوں ؟ بگٹی صاحب نے پنجابی میں جواب دیا ۔
آپ نے پنجابی کہاں سیکھی ؟
پنجاب کی جیلوں میں ، ان کا جواب تھا ۔

اس مکالمے سے جہاں دوسرے صوبوں کے اہل دانش کی پنجابیوں پر اپنی زبان و ثقافت سے بیگانگی پر طنز نظر آتی ہے اور فوجی حکومتوں کی طرف سے قید و بند کی صعوبتیں دینے پر پنجاب کو ( کیونکہ اُن کی نظر میں فوج کے اقدامات پنجابی اکثریت کے اقدامات ہیں ) جبر کا استعارہ بنا کر پیش کیا گیا ہے وہیں اپنی زبان اورثقافت کی قر بانی کو دوسرے صوبوں کی شناخت مٹانے کے حربے کے طور پر بھی دکھانے کی سعی کی گئی ہے ۔

یہ نقطۂ نظر اس عمومی رویے کا عکاس ہے جو چھوٹے صوبوں کے اہل دانش پنجاب کے متعلق روا رکھتے رہے ہیں اور آج تک روا رکھے ہوئے ہیں ۔

اس ساری بحث کے بعد اگر نیک نیتی سے سوچیں تو محسوس ہو گا کہ ہم نے ’’قومی یکجہتی‘‘ کی اصطلاح کو ہمیشہ غلط سیاق و سباق میں بیان اور مشتہر کیا ہے ۔ اسے ہم نے حقوق مانگنے والے چھوٹے صوبوں اور اقلیتوں کے خلاف ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہے اور قومیتوں کو ان کے حقوق دینے کے معاملے میں ایک بہانے کا کام لیا ہے ۔

ہمیں یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ہونی چاہئے کہ ان ڈھالوں اور بہانوں نے ہمیں قومی طور پر مضبوط کرنے کی بجائے کمزور کیا ہے اور اگر آئندہ بھی ہم نے انہی حربوں سے کام لیا تو ہماری کمزوری اور زیادہ واضح ہو کر سامنے آئے گی ۔

جدید دنیا کی تاریخ میں ’’ قومی یکجہتی ‘‘ ملکی قومیتوں (چاہے چھوٹی ہوں یا بڑی) کے حقوق سلب کرکے نہیں بلکہ انہیں حقوق مہیا کر کے حاصل کی جاتی ہے ۔ قومیتی گروہوں کو ایک قوم میں ڈھلنے کے لئے سالوں کا نہیں صدیوں کا عرصہ درکار ہوتا ہے ۔ امریکی قوم نے صدیوں میں اس منزل کی طرف پیش رفت کی ہے ۔ ہندوستان بھی اس منزل کی طرف گامزن ہے اور قومیتی اکائیوں کو ان کے حقوق دے کر آہستہ آہستہ اپنے وفاق کو مضبوط کرتا جا رہا ہے ،اس سے وطنیت کا جذبہ بھی بڑھ رہا ہے ۔

قومی یکجہتی یہ نہیں ہے کہ ہم مختلف حیلوں بہانوں سے اپنی قومیتوں کو بادل نخواستہ اپنے ساتھ جوڑے رکھیں بلکہ قومی یکجہتی یہ ہے کہ وہ خوشی سے ، پُر اعتماد طریقے سے اور وفاق پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ رہنے پر تیار ہوں اور ایسا اسی صورت میں ممکن ہو سکتا ہے کہ جب ہم انہیں نہ صرف ان کے حقوق دیں بلکہ اُن حقوق کے محافظ اور ضامن بھی بنیں ۔ اس ضمن میں خلوص دل سے ایک سوشل کنٹریکٹ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ یہ سوشل کنٹریکٹ ہمیں اندرونی طور پر مضبوط کرے گا ۔ اسی اندرونی مضبوطی کے حصول کے بعد ہم اپنی تعمیر و ترقی پر توجہ دے سکیں گے اور پھر بیرونی دنیا کے سامنے زیادہ اعتماد سے کھڑے ہو سکیں گے ۔

Comments are closed.