پاکستان نے ملک کے ایک سابق فوجی جنرل کو نیا ملکی سکیورٹی ایڈوائز مقرر کر دیا ہے، جس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ پاکستانی فوج ہمسایہ ممالک کے حوالے سے سکیورٹی پالسیوں میں اپنا کردار مزید مضبوط بنانا چاہتی ہے۔
ابھی تک اس عہدے پر پاکستانی رہنما سرتاج عزیز تعینات تھے، جو وزیراعظم نواز شریف کے انتہائی قریبی ساتھی بھی ہیں۔ سرتاج عزیز ملکی خارجہ امور کے حوالے سے بھی نواز شریف کے مشیر ہیں۔ ممکنہ طور پر یہ عہدہ ابھی انہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ کابینہ ڈویژن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ہفتے ریٹائر ہونے والے لیفٹیننٹ جنرل نصیر خان جنجوعہ کو ’’فوری طور پر‘‘ ملک کا نیا سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا جا رہا ہے۔
نواز شریف کی کابینہ میں ایک سینیئر وزیر کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف ایک عرصے سے یہ کہہ رہے تھے کہ نیشنل سکیورٹی ایڈوائز ( این ایس اے) اور خارجہ امورکا عہدہ دو مختلف شخصیات کے پاس ہونا چاہیے لیکن وزیراعظم کی ابھی تک یہی خواہش تھی کہ یہ دونوں عہدے ان کے اپنے قریبی ساتھی کے پاس رہیں۔ ایک دوسرے وزیر کا بھی نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’ اب آرمی چیف نے وزیراعظم کو قائل کر لیا ہے کہ پاکستان کے قومی سکیورٹی خدشات کے حوالے سے ذمہ داری کا اشتراک ضروری ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی رائٹرز نے ایک فوجی ذریعے کے حوالے سے بتایا ہے، ’’آرمی چیف سمجھتے ہیں کہ سرتاج عزیز صاحب کی توجہ بٹی ہوئی ہے۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ جنرل جنجوعہ کو نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مقرر کیا جائے اور سرتاج عزیز اپنی ساری توجہ دفتر خارجہ کو دے سکتے ہیں۔‘‘
اس اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر مزید کہنا تھا، ’’یہ ایسا نہیں ہے کہ وزیراعظم آرمی سربراہ کے سامنے جھُک رہے ہیں یا فوج زبردستی کر رہی ہے، ایسا بالکل نہیں ہے۔ بلکہ یہ دونوں اطراف مل کر طے کر رہے ہیں۔‘‘
ایک دوسرے سکیورٹی عہدیدار کا جنرل جنجوعہ کی تقرری کے بارے میں کہنا تھا، ’’یہ حکم منوانے کی بات نہیں بلکہ جگہ کے اشتراک کی بات ہے۔ جمہوریت اسی طرح چلتی ہے اور یہی جمہوریت کا حسن بھی ہے۔‘‘
نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کے پاکستان کی طاقتور فوج کے ساتھ تعلقات کشیدگی کا شکار رہے ہیں جس کے ہاتھوں وہ سن انیس سو ننانوے میں بطور وزیراعظم اپنے عہدے سے محروم کر دیے گئے تھے۔ انہوں نے سن دو ہزار تیرہ میں ایک بار پھر وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا اور ہمسایہ ملک بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے عزم کا اظہار کیا۔
گزشتہ برس ان کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج کا آغاز ہوا تھا، جن کے بعد انہیں یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ ان کے خلاف کوئی بغاوت نہیں کی جائے گی۔
DW