عزا داروں پر خود کش بم حملہ: لشکر جھنگوی نے اعتراف کر لیا

_82979658_pakistanmosqueattack

پاکستانی صوبہ سندھ کے ایک وزیر کے مطابق جیکب آباد میں شیعہ عزا داروں کے ایک اجتماع پر خود کش بم حملے کی ذمے داری کالعدم سنی عسکریت پسند تنظیم لشکر جھنگوی نے قبول کر لی ہے۔ اس حملے میں ہلاکتوں کی تعداد چوبیس ہو گئی ہے۔

بلوچستان اور سندھ میں شیعہ ماتمی اجتماعات پر بم حملوں کے بعد پورے ملک میں سکیورٹی انتظامات مزید سخت کیے جا چکے ہیں۔

پاکستان کے جنوبی بندرگاہی شہر اور سندھ کے دارالحکومت کراچی سے ہفتہ چوبیس اکتوبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال نے آج بتایا کہ جیکب آباد میں ایک مقامی شیعہ رہنما کے گھر کے باہر عزا داروں کے ایک بہت بڑے ماتمی اجتماع کے شرکاء کو کل جمعے کے روز جس مشتبہ خود کش بم حملے کا نشانہ بنایا گیا، اس کی ذمے داری لشکر جھنگوی نامی ممنوعہ سنی شدت پسند تنظیم نے قبول کر لی ہے۔

سہیل انور سیال نے کراچی میں مقامی میڈیا کو بتایا، ’’مجھے ملنے والی ابتدائی اطلاعات کے مطابق لشکر جھنگوی نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ بم حملہ اس کی کارروائی تھا۔‘‘

صوبائی وزیر نے یہ بھی کہا کہ اس حملے میں مارے جانے والے خود کش حملہ آوروں کے فنگر پرنٹس کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور پولیس کے انسداد دہشت گردی کے یونٹ کی ٹیمیں تحقیقات کر رہی ہیں۔

قبل ازیں آج ہی صوبائی وزیر صحت جام مہتاب داہر نے تصدیق کی تھی کہ اس حملے میں مارے جانے والوں کی تعداد بڑھ کر 24 ہو گئی ہے جبکہ 80 کے قریب جو دیگر افراد زخمی ہو گئے تھے، ان میں سے 20 کی حالت ابھی تک تشویشناک ہے۔ جیکب آباد پولیس کے مطابق اس دھماکے کے ہلاک شدگان میں چھ بچے بھی شامل ہیں۔

لشکر جھنگوی کی طرف سے پاکستان میں شیعہ اقلیتی مسلمانوں پر ماضی میں درجنوں مرتبہ انتہائی خونریز حملے کیے جا چکے ہیں۔ سرکاری طور پر پاکستان کی قریب 200 ملین کی مجموعی آبادی میں شیعہ مسلمانوں کا تناسب تقریباً 20 فیصد بنتا ہے۔

اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم کے پہلے ایک تہائی حصے کے دوران شہدائے کربلا کی یاد میں دنیا بھر کے شیعہ مسلمانوں کی طرح پاکستان میں بھی شیعہ عزا دار مختلف شہروں میں بے شمار چھوٹے بڑے اور مرکزی ماتمی جلوس اور تعزیے نکالتے ہیں۔

اس عزا داری کے موقع پر عام طور پر نظر آنے والی فرقہ ورانہ کشیدگی کے واقعات اور دہشت گردانہ حملوں کے پیش نظر اس سال بھی عاشورہ محرم کی مناسبت سے پورے پاکستان میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے ہیں اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے پولیس کی مدد کی خاطر اضافی طور پر دس ہزار فوجی اور چھ ہزار رینجرز اہلکار بھی تعینات کیے گئے ہیں۔

DW

Comments are closed.