ڈاکٹر محمد تقی
بائیس اکتوبر کو ایک نکمے امریکی صدر کی ایک حقیقی نکمے پاکستانی وزیر اعظم کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقات واشنگٹن ڈی سی میں ہوئی۔ نیشنل پبلک ریڈیو پر اس ملاقات کو چار منٹ کی کوریج ملی جبکہ کسی بھی ٹی وی نیٹ ورک میں اس کی خبر نہ ہونے کے برابر تھی۔ جیسا کہ کہا جارہا تھا کہ نوازشریف اور اوبامہ کی ملاقات میں کوئی بڑابریک تھرو متوقع نہیں ویسا ہی ہوا۔ نوازشریف کی کامیابی یہی ہے کہ انہوں نے سٹیٹس کو کو برقرار رکھا۔(یادرہے کہ امریکہ میں صدر کے آخری سال میں اسے لیم ڈک کہا جاتا ہے)۔
وزیر اعظم اور ان کے قومی سلامتی کے مشیر اور جز وقتی وزیر خارجہ ابھی واشنگٹن میں ہی تھے کہ اسلام آباد میں کیبنٹ ڈویژن نے حال ہی میں ریٹائر ہونے والے جنرل نصیر جنجوعہ کی بطور قومی سلامتی مشیر کی تقرری کا نوٹیفیکشن جاری کردیا ۔ ایسے وقت میں جب وزیر اعظم کا سیاسی معاملات میں عمل دخل کم ہورہا ہے یہ خبر انتہا ئی اہم تھی کہ واشنگٹن میں موجودگی کے دوران ان کے مشیر کا عہدہ آدھا رہ گیا۔
جنرل جنجوعہ وزیر اعظم کی امریکہ روانگی سے پہلے ان سے مل چکے تھے اور سرتاج عزیز کی جگہ ان کی تقرری کا فیصلہ ہو گیا تھا ۔ ہو سکتا ہے کہ امریکیوں پر اس کا کوئی اثر نہ پڑا ہو مگر پیغام واضح تھا کہ وزیر اعظم کا خارجہ امور اور قومی سلامتی کے امور میں کوئی اختیار نہیں ۔جنرل جنجوعہ کی تقرری سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ پاکستان کی بلوچستان اور افغانستان کی ترجیحات میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی۔
جنرل جنجوعہ بلوچستان میں ملٹری کمانڈر تھے جن کی نگرانی میں (قوم پرستوں ) کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ ان کے دور میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ، جبری اغوا ، لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی بلوچستان کا معمول تھا۔ انسانی حقوق کے ادارے چیختے چلاتے رہے مگر کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ امریکی تھنک ٹینک میں وزیراعظم کی تقریر کے دوران ایک بلوچ سیاسی کارکن احمر مستی خان کی طرف سے ان کی تقریر میں مداخلت کو روکنا تو آسان ہے لیکن قومی سلامتی کے مشیر کے تقرر سے بلوچستان کے رستے ہوئے زخموں پر مرہم نہیں رکھا جا سکتا۔
افغان مسئلے پرجاری پاک امریکہ مشترکہ بیان مبہم الفاظ کا مغلوبہ ہے جس سے کوئی رہنمائی نہیں ملتی۔ بیان کے مطابق وزیر اعظم نے کہا کہ’’ نیشنل ایکشن پلان کے تحت اس بات کو یقینی بنایا گیا ہے کہ طالبان بشمول حقانی نیٹ ورک پاکستانی سرزمین سے کاروائیاں کرنے کے قابل نہ رہیں‘‘۔ الفاظ کا بے جا استعمال اس امریکی خدشے کے جواب میں کیا گیا کہ حقانی نیٹ ورک پاکستان سے دہشت گردی کی کاروائیوں میں مصروف ہے۔
چھ اکتوبر 2015 کو افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان کیمبل نے امریکی سینٹ کی کمیٹی برائے مسلح افواج میں کے سامنے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’ دہشت گردی کی بدترین کارروائیوں میں ملوث حقانی نیٹ ورک بدستور پاکستان کی سرزمین سے کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ القاعدہ کا اتحادی یہ (حقانی) نیٹ ورک، نیٹو افواج کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ حقانی نیٹ ورک افغان طالبان کے ساتھ مل کر نیٹو افواج کو اس خطے سے نکال کر افغانستان کی جمہوری حکومت کو ختم کر کے خود اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتاہے ۔
ستمبر2011 میں بھی افغانستان میں اس وقت کے امریکی فوجی کمانڈر ایڈمرل مائیک مولن نے اسی سینٹ کی کمیٹی کے سامنے اس سے بھی زیادہ سخت جواب دیتے ہوئے کہا تھا ’’ حقانی نیٹ ورک آئی ایس آئی کے بازو کے طور پر کام کرتا ہے اور آئی ایس آئی کی مدد سے حقانی گروپ کے افراد نے ٹرک بم حملے کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل کرتے ہوئے امریکی ایمبسی پر حملہ کیا تھا‘‘۔
حالیہ وکی لیکس کے مطابق، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ سی آئی اے کے سربراہ جان برینن کی غیر سرکاری ای میلز ہیں، جان برنین 2008 میں بھی ایسے ہی خطرات سے متنبہ کر رہے تھے۔برینن جو اس وقت صدر اوبامہ کی صدارتی مہم کے مشیر تھے، نے اوبامہ کو لکھا کہ پاکستان عسکریت پسندوں کے ذریعے بھارت کے ساتھ چپقلش میں ملوث ہے ’’پاکستان افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کا جہادی تنظیموں کے ذریعے مقابلہ کرنا چاہتا ہے اور طالبان کے ذریعے امریکی افواج کے نکلنے کے بعد اس خطے میں بھارت اور ایران کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنا چاہتا ہے‘‘۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے ’’ دونوں رہنما اس بات کا اعادہ کرتے ہیں کہ افغانستان میں امن کے لیے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا عمل جاری رہنا چاہیے اور طالبان رہنماؤں پر زور دیا گیا ہے کہ کابل کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے ذریعے پائیدار امن کی کوششیں کریں ‘‘۔ اگر جنرل کیمبل کی امریکی سینٹ کمیٹی کے سامنے دیئے جانے والے بیان کو دیکھا جائے تو یہ مشتر کہ بیان انتہائی کھوکھلا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان طالبان کو بیک وقت مذاکرات اور قتل و غارت نہ کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتا ہے۔افغان قومی سلامتی کے عہدیدار حنیف اتمار نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کے پاس طالبان کو مذکرات پر آمادہ کرنے کی صلاحیت ہے تو آپ میں یہ صلاحیت بھی ہے کہ انہیں دہشت گردی سے روکیں۔
افغان حکومت کو اس بات کی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی میں التواء کے باوجود امریکہ افغان مسئلے کو پاکستان کی عینک سے دیکھ رہاہے ۔اسے پاگل پن ہی کہا جا سکتا ہے کہ آپ باربار ایک ہی عمل سے مختلف نتائج کی توقع کریں۔ صدر اوبامہ انتہائی زیرک شخص ہیں لیکن وہ ایک مخصوص مائنڈسیٹ سے باہر نکلنے کو تیار نہیں۔
امریکی صدر جنوبی ایشیا میں امن کی کشتی کو ڈولتے رہنے دینا چاہتے ہیں جس کا مطلب ہے کہ وہ یہ مسئلہ آنے والے صدر کے کندھوں پر ڈال رہے ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف خوش ہوں گے کہ ایٹمی ہتھیاروں پر انہیں کسی سخت مطالبے کا سامنا نہیں کرنا پڑا، بھارت سے متعلق جہادی تنظیموں پر چند الفاظ کا اظہار اور افغانستان سے متعلق رٹا رٹایا بیان جاری کر دیا گیا۔
افغانستان میں امن اس وقت تک خواب ہی رہے گا جب تک پاکستان طالبان کی سرپرستی سے ہاتھ نہیں کھینچے گا جس کا اظہار جنرل کیمبل نے واضح طور پر کیا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی کو دونوں ممالک کے معذور سربراہان کے مذاکرات سے بالا تر ہو کر اس خطے میں امن کی کوشش کرنا ہو گی۔
♣