بیرسٹر حمید باشانی
قدرتی آفات کا تعلق ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہے۔ یہ آفات ماحولیاتی تباہی کے بطن سے جنم لیتی ہیں۔ پاکستان میں سیلاب عذاب خداوندی یا انسانی گناہوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ ان لغزشوں، کوتاہیوں اور غلطیوں کا نتیجہ ہے، جن کی وجہ سے انسان نے اپنے ارد گرد کے ماحول کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ آج ہزاروں لوگ اس سیلاب کی تباہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ لیکن یہ تباہی یہاں پر ختم نہیں ہو گی۔آگے چل کراس کے بطن سے بھوک، ننگ، بے روز گاری اور بیماریاں جنم لیں گی۔ اس وقت سیلاب کا شکار لوگوں کے دکھ و مصائب کا مداوا ضروری ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ ان عوامل و وجوہات پر غور ضروری ہے، جن کی وجہ سے سیلاب جیسی آفات آتی ہیں، تاکہ مستقبل میں ان ک تدارک ممکن ہو سکے۔
بہت عرصہ پہلے میں نے ان ہی سطور میں ماحولیات پر ایک اہم کتاب ” سرمایہ داری بنام ماحولیات ” کا حوالہ دیا تھا۔ ماحولیات اور موجودہ معاشی نظام پر یہ کتاب بائیں بازوکی دانش ور اور مشہور کینیڈین مصنف نومی کلین نے لکھی ہے۔ 2014 میں نیو یارک ٹائمز کی فہرست میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی اس کتاب میں نومی کلین نے دنیا کو در پیش ماحولیاتی مسئلے کا سیاسی نقطہ نظر سے جائزہ پیش کیا ہے۔ دنیا میں ماحولیاتی تباہی میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ کتاب اور زیادہ مقبول ہوتی جا رہی ہے ۔ مصنفہ نے اس پیچیدہ سوال کا جواب فراہم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرہ اصل میں ہے کیا؟ اور انسان آج تک اس عظیم خطرے کا جواب دینے میں ناکام کیوں رہا ہے۔
کلین نے اپنے دلائل کی بنیادحقائق اور سائنسی اعداد و شمار پر رکھی ہے۔ اس سائنسی رائے کے مطابق ہم ایک ایسی ماحولیاتی تباہی کی طرف گامزن ہیں، جو قدرتی ماحول کو ناقابل مرمت یا ناقابل تلافی نقصان پہنچائے گی۔ یہ کروڑوںزندگیاں تباہ کر دے گی، اوربالآخر اس عمل کے اندر انسانی سماج کو غیر مستحکم کر دے گی۔لیکن حیرت انگیز طور پر اس بڑے خطرےکے تدارک کے لیے ہماری کوششیں محدودہیں۔ کلین کے نزدیک اس کا جواب سیاست سے جڑا ہے۔ اس مسئلے کے ساتھ ان لوگوں کے مفادات وابستہ ہیں، جو دنیا بہت زیادہ سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم اس مسئلے کو حل کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے ٹیکنالوجی اور علم موجود ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی اور مستند علم کی بنیاد پر ہم توانائی کے نقصان دہ اور فرسودہ طریقوں کے بجائے متبادل اور قابل تجدید ماڈل اپنا سکتے ہیں۔ مگر اس مقصد کے لیےاس وقت ہمارے پاس سیاسی خواہش اور عزم کی کمی ہے۔جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس سنگین مسئلے کے حل عام نوعیت کے چھوٹے موٹے اقدامات سے نہیں نکالا جا سکتا۔اس کے لیے موجودہ نظام میں بنیادی نوعیت کی انقلابی تبدیلیوں کی ضرورت ہے ۔
لیکن اس میں مشکل یہ ہے کہ یہ تبدیلیاں موجودہ نظام کو چلانے والے طاقت ور اور مراعات یافتہ گروہوں کے سیاسی اور معاشی مفادات سے متصادم ہیں۔ اور یہی وہ لوگ ہیں، جن کا سیاست میں غالب کردار ہے۔ یہ لوگ سیاست کے خدو خال طے کرتے ہیں۔ اور ایسی پالیسیاں بنانے پر قادر ہیں، جو براہ راست ماحول کو متاثر کرتی ہیں۔ ماحول کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ہمیں کاربن کے اخراج میں کمی لانی ہو گی، اور اس مقصد کے لیے ہمیں ہر چیز بدلنے کے لیے تیار ہونا پڑے گا۔ ہمیں “فری مارکیٹ اکانومی ” یا آزاد منڈی کی معیشت کے روایتی دائروں سے باہر نکل کر دیکھنا ہو گا۔ مروجہ کاربن زدہ طرز زندگی کو بدلنا ہو گا۔ اور اس خیال اور سوچ میں بنیادی تبدیلی لانی ہو گی کہ ہم فطرت کو اپنی مرضی اور ضروریات کے مطابق لا محدود پیمانے پر استعمال کر سکتے ہیں، اس کا استحصال کر سکتے ہیں، اور اس کو اپنی مرضی سے کنٹرول کر سکتے ہیں۔ اگر ہم نے یہ سب کچھ بدلنا ہے تو دنیا کو دیکھنے کے لیے ایک نئے زوایہ نگاہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
دنیا بھر کے انسان دوست دانش ور اب اس نقطے پر متفق نظر آنے لگے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد دراصل معاشی اور سماجی انصاف کی جدوجہد سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے تبدیلی کے لیے ایک ایسی عوامی تحریک کی ضرورت ہے، جو عوام کی نچلی پرتوں سے شروع ہو اور ان کو ساتھ لے کر چلے۔ ایک ایسی تحریک جو موجودہ سماجی و سیاسی جدوجہد کے مختلف عناصر اور رنگوں کو متحد کر سکے۔ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدوجہد کے راستے میں کئی دیکھی ان دیکھی رکاوٹیں ہیں۔ ان میں بہت ساری سیاسی رکاوٹیں ہیں۔
ان میں پہلی بڑی سیاسی رکاوٹ وہ منظم تحریک ہے، جو ماحولیاتی تبدیلی اور تباہی سے انکار کرنے والے لوگوں کی قیادت میں چلائی جا رہی ہے۔ یہ تحریک ماحولیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے ہی نکار کرنے پر بضد ہے۔ دوسری بڑی رکاوٹ خود نیو لبرل ازم کا نظام ہے۔ اور تیسری رکاوٹ وہ ماحول دشمن تجارتی معا ہدے ہیں، جو عالمی سطح پر اسی اور نوے کی دہائیوں میں مختلف اقوام کے درمیان کیے گئے۔ اس کے علاوہ اس راستے کی بڑی رکاوٹوں میں ایک جانی پہچانی رکاوٹ حیاتیاتی ایندھن کی طاقت ور صنعت ہے، جس کا سیاست میں بے پناہ اثر و رسوخ ہے۔ ان سب رکاوٹوں کے خلاف جدوجہد ماحولیات کے تحفظ اور انسانی زندگی کی بقا کے لیے لازمی ہے۔ اور ان رکاوٹوں کو ختم کر کہ ایک نیا نظام تعمیر کیے بغیر ماحول بچانے میں مکمل کامیابی ممکن نہیں ہے۔
اس مقصد کے لیے متبادل پالیسیوں پر غور کرنا بھی ضروری ہے۔ متبادل پالیسی کا ایک اچھا اظہار جرمنی کاتوانائی کا قابل تجدید انفراسٹریکچر ہے، جو جمہوری طریقے سے چلایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا میں کئی ماحول دوست منصوبے، ٹیکس ماڈل، اور قوانین بھی ہیں، جن کے تحت ماحولیاتی آلودگی پھیلانے والے منصوبوں سے فنڈز نکال کر ماحولیات دوست منصوبوں پر لگائےگئے ہیں۔متبادل ذرائع میں ایک بڑا اور کامیاب ذریعہ عوامی تحریکیں ہو سکتی ہیں۔ ان تحریکوں کے ذریعے ارباب اختیار کو ماحول میں آلودگی پیدا کرنے والی پالیسیوں میں تبدیلی لانے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں دنیا بھر میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے بکھری ہوئی چھوٹی موٹی تحریکوں کو ایک بڑی عوامی تحریک میں یکجا کرنا ضروری ہے۔
کلین نے اس کتاب میں ان عناصر کا بھی جائزہ لیا ہے، جنہوں نے ماحولیاتی تحفظ کی تحریک میں منفی کردار ادا کیا ہے۔ ایک عنصر” غلط وقت” ہے۔ غلط وقت کا مطلب یہ ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جدو جہد عین اس وقت شروع ہوئی، جب اس کرہ ارض پر نیولبرلزم ایک غالب طاقت کے طور پر ابھر رہا تھا۔ اس ابھرتے ہوئے نیو لبرل ازم کے مقابلے میں ایسی ماحول دوست پالیسیوں کو آگے بڑھانا مشکل تھا، جو نیولبرل ازم کے معاشی اور سیاسی مفادات سے متصادم تھیں۔
دوسرا منفی فیکٹر یہ تھا کہ بڑے کاروباری ادارے اور افراد اپنے طور پر ماحولیاتی تبدیلی کا کوئی جادوئی فارمولا ڈھونڈ رہے تھے۔ اس میں کھرب پتی حضرات بھی شامل تھے، جو اپنی شرائط پر ماحول کو بچانے کی خواہش رکھتے تھے۔ یا ایسے لوگ جو مستقبل کی ٹیکنالوجی سے کسی معجزہ کی توقع رکھتے تھے۔ یہ منفی عناصر ابھی تک موجود ہیں۔ کئی جادوئی سچ کا غلبہ ہے۔ اور کئی اس خام خیالی کا غلبہ ہے کہ ماحولیاتی تباہی کی ذمہ دار قوتوں کے مفادات کو چھیڑے بغیر محض درخت لگانے یا اس طرح کے دوسرے چھوٹے موٹے اقدامات سے ماحول کو بچایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہ سوچ راسخ ہے، جس میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
♣