جمہوریت بمقابلہ آمریت


محمد شعیب عادل

روس یوکرین جنگ میں ایک گروہ کا خیال ہے کہ امریکہ نے روس کو تباہ کرنے کے لیے یہ جنگ شروع کی ہے۔ بائیں بازو کے دانشوروں کی روایتی سوچ کے مطابق امریکہ اور یورپ نے آخر جو جدید ترین ہتھیار تیار کیےہیں ان کو بھی تو ٹیسٹ کرنا ہے یا فروخت کرنا ہیں تاکہ ان کی فیکٹریاں چلتی رہیں۔لیکن میرا خیال ہے کہ اگر روس میں ایک جمہوری حکومت ہوتی تو شاید یہ جنگ نہ چھڑتی۔

اکتوبر 2021 کے وسط میں روس نے یوکرین کے بارڈر میں فوجیں اکٹھی کرنی شروع کیں توامریکی انٹیلیجنس نے یورپ کو خبردار کیا تھا کہ جس طریقے سے بارڈر پر فوج اکٹھی کی جارہی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ روس کی نیت ٹھیک نہیں اور وہ یوکرین پر حملہ کر سکتا ہے۔اگر روس یوکرین پر قبضہ کرلیتا ہے تو پھر اس کا اگلا ہدف یورپ کے دوسرے ممالک، خاص کر وہ جو رشین فیڈریشن سے علیحدہ ہوئے ہیں، ہونگے۔ اور صدرپوٹن نے اس کا کئی دفعہ اعادہ بھی کیا کہ وہ روس کو کمیونسٹ پارٹی کے وقت کی ایک عظیم الشان سلطنت بنانا چاہتے ہیں۔

ابتدائی طور پر یورپ نے امریکی انٹیلیجنس رپورٹوں کو سنجیدہ نہ لیا ۔ ان کا خیال تھا کہ روس محض دباؤ ڈالنے یا اپنے عوام کی مختلف مسائل سے توجہ ہٹانے کے لیے ایسا اقدام کر رہا ہے۔لیکن جلد ہی یورپی ممالک کو اندازہ ہوگیا کہ معاملہ اتنا سادہ بھی نہیں۔

امریکہ، فرانس ، جرمنی اور برطانیہ کے سربراہوں نے صدر پوٹن سے مذاکرات شروع کیے ، ملاقاتیں کیں اور اس کو کسی بھی مہم جوئی سے باز رکھنے کی کوشش کی لیکن پوٹن نے شاید حملہ کرنے کی ٹھان لی ہوئی تھی۔ پوٹن کے چند ایک مشیروں نے اس جنگ سے باز رہنے کی دبے الفاظ میں مخالفت کی۔ لیکن ایک ڈکٹیٹر اپنے مشیروں سے وہی کچھ سننا چاہتا ہے جو وہ چاہتا ہے۔

یورپ اور روس کے درمیان کئی بلین ڈالر کی تجارت ہورہی تھی ۔یورپی ممالک کا موقف تھا کہ اگر کوئی مسئلہ ہے تو اسے بات چیت کے ذریعے حل کیاجاسکتا ہے۔ جبکہ پوٹن کا خیال تھا کہ چونکہ یورپ کا انحصار اس کے تیل و گیس پر ہے لہذا وہ یورپ کو بلیک میل کرنے کی بہتر پوزیشن میں ہے۔ یورپ اور امریکہ کبھی نہیں چاہتے تھے کہ یہ جنگ شروع ہو۔یورپ اور امریکہ کی تمام تر مصالحانہ کوششوں کے باوجود 24 اکتوبر 2022 کو پوٹن کے حکم پر روسی افواج نے یوکرین پر چڑھائی کردی۔

پوٹن کا خیال تھا کہ جس طرح 2014 میں اس نے یوکرین کے علاقے کرائمیا پر قبضہ کیا تھا لہذا یوکرین تو چند دنوں کی مار ہے اورتین چار دنوں میں وہاں روس کا پرچم لہرائے گا۔لیکن اس کے تمام اندازے غلط ثابت ہوئے اور جس طریقے سے یوکرین کی افواج نے اپنے سے کئی گنا بڑی فوج کے خلاف مزاحمت کی اور روسی افواج کو سرحدی علاقوں تک دھکیل دیاوہ حیران کن ہے۔آغاز میں تو یوکرین کے پاس جدید ترین ہتھیار بھی نہ تھے لیکن جنگ شروع ہونے کے بعد بہرحال امریکہ اور یورپی ممالک نے اسے انٹیلی جنس سمیت جدید ترین ہتھیار فراہم کیے۔

اس مشکل وقت میں یوکرین کے صدر زیلسنکی کا کردار بہت اہم ہے جس نے بیرون ملک بھاگنے کی بجائے اپنے ملک میں رہ کر عملی طور پر فوج کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر جنگ کی قیادت سنبھالی اور فوج اور عوام کا حوصلہ بلند کیا اور وہ روس جس نے تین دن میں اس کے درالحکومت کیف پر قبضہ کرنا تھا اب جنگ بندی کرنے کے بہانے تراش رہا ہے۔یوکرین ملبے کا ڈھیر بن چکا ہے لیکن اس کی عوام اور فوجیوں کا حوصلہ بلند ہے۔

دوسری طرف صدر پوٹن نے اپنی ریگولر فوج کی ناکامی پرجنگ میں جھونکنے کے لیے نئی بھرتی کا اعلان کیا ہے اور روسی نوجوانوں کو زبردستی چند ہفتوں کی فوجی تربیت کے بعد جنگ لڑنے کے لیے تیارکرنے کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس کے مطابق اگر کوئی بھرتی سے انکار کرے گا تو اسے دس سال قید کی سزا بھگتنی ہوگی۔ اس وقت روس میں ماسکو سمیت کئی شہروں میں اس جنگ کے خلاف مظاہرے ہورہےہیں۔ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ملک سے بھاگ رہی ہے۔ جبکہ یورپ کو اس جنگ سے کساد بازاری اور مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن بہرحال تمام یورپی ملک روس کے معاملے پرا کٹھے ہیں اور اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مختلف اقدامات کررہے ہیں۔

یاد رہے کہ امریکہ نے جدید ترین ہتھیار، انٹیلی جنس اور بہترین تربیت تو افغان فوج کی بھی کی تھی جس کی تعداد افغان حکومت کے مطابق دو ڈھائی لاکھ تھی ۔ لیکن چونکہ افغان فوج سمیت افغان سیاسی قیادت بھی کرپٹ تھی لہذا انھوں نے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دیے اور بیرون ملک بھاگ گئے۔

صدر ٹرمپ کے دور میں افغانستان کی صورتحال پر سپیشل انسپکٹر جنرل نے رپورٹ تیار کی تھی جس میں بتایا گیا تھا کہ افغان قیادت اور فوج انتہا درجے کی کرپٹ ہوچکی ہے اور امریکی عوام کا پیسہ کرپشن کی نذر ہورہا ہے جس پر صدر ٹرمپ نے فیصلہ کیا تھا کہ افغانستان سے امریکی افواج کو نکالا جائے ۔ اخر امریکہ افغان فوج کی اتنے عرصے سے نہ صرف ٹریننگ کررہا ہے بلکہ انٹیلی جنس سمیت جدید ترین ہتھیار بھی ان کے پاس ہیں۔ لہذا انھیں اب اپنے حالات کا خود مقابلہ کرنا چاہیے۔

Comments are closed.