آصف جیلانی
اس وقت جب کہ مغربی دنیا کے ساتھ ایران کے تعلقات داؤ پر لگے ہوئے ہیں ، جمعہ ۱۹ مئی کو ہونے والے ایرانی صدارتی انتخاب کو بے حد اہمیت دی جارہی ہے۔یہ انتخاب ، مغرب کے ساتھ 2015کے جوہری سمجھوتہ کے بعد پہلا انتخاب ہے ،جوہری سمجھوتہ کا مستقبل ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد شکوک و شبہات کی دھند میں گھر گیا ہے۔ ٹرمپ نے کھلم کھلا کہا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری سمجھوتہ کو منسوخ کر دیں گے ۔ گو ابھی انہوں نے اس سمجھوتہ کی منسوخی کے سلسلہ میں کوئی قدم نہیں اٹھایا لیکن خطرہ برابر منڈلا رہا ہے ۔
پھر ایران کی داخلی سیاست کے مستقبل کے لحاظ سے بھی یہ صدارتی انتخاب بے حد اہم ہے۔ ایران کے رہبر معظم 78سالہ سید علی حسینی خامنہ ای اس وقت علیل ہیں اور ان کی علالت کے پیش نظر ان کے ممکنہ جانشین کے بارے میں قیاس آرائیاں جاری ہیں۔ بلا شبہ اگلے رہبر معظم کے انتخاب میں صدر کو بہت اہمیت حاصل ہوگی لہذا یہ صدارتی انتخاب ایران کی سیاست کے مستقبل کے لئے بے حد اہم ہوگا۔
ایران میں صدر کے انتخاب کا طریقہ کار دوسری جمہوریتوں میں صدر کے براہ راست انتخاب سے بہت مختلف ہے۔ ایران میں صدر کا انتخاب ہر شخص نہیں لڑ سکتا بلکہ رہبر معظم کی مقرر کردہ بارہ رکنی شورائی نگہبان امیدواروں کی چھان بین کرتی ہے ۔ اس شوری میں چھ علماء اور عدلیہ کے تجویز کردہ چھ قانونی ماہرین ہوتے ہیں۔اس شوری کو کلی اختیار ہے کہ کون امیدوار صدارتی انتخاب لڑ سکتا ہے۔
اس بار 1600 امیدواروں نے صدارتی انتخاب لڑنے کے لئے درخواست دی تھی جن میں ایک سو خواتین شامل تھیں۔ درخواست دہندوں کی اس بڑی تعداد میں سے صرف چھ امیدواروں کو صدارتی انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی۔ کسی خاتون کو یہ اعزاز حاصل نہ ہوسکا۔ سابق صدر احمدی نژاد بھی درخواست دہندوں میں شامل تھے لیکن انہیں شوری نے مسترد کر دیا۔ جن چھ امیدواروں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دی گئی ہے ان میں موجودہ صدر حسن روحانی ، ان کے نایب صدر اسحاق جہانگیری ، تہران کے مئیر محمد باقر غالی باف، کم معروف سیاست دان مصطفی آغا میر سالم اور، مصطفی ہاشمی طبا شامل ہیں ۔
ان کے ساتھ ممتاز قدامت پسند ابراہیم ریئسی بھی امیدوار ہیں۔ تہران کے مئیر غالی باف نے ابرہیم رئیسی کے حق میں اپنا نام واپس لے لیا ہے۔ لہذا اب پانچ امیدواروں میں مقابلہ رہے گا۔ پہلے راونڈ میں جو امیدوار پچاس فی صد سے زیادہ ووٹ حاصل کریں گے ،دوسرے راونڈ میں ان کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ عام خیال یہ ہے کہ آخری معرکہ موجودہ صدرحسن روحانی اور ابراہیم ریئسی کے درمیان رہے گا۔
ارسٹھ68سالہ اعتدا ل اور اصلاح پسندحسن روحانی کی کامیابی کے امکانات زیادہ قوی بتائے جاتے ہیں جنہوں نے مغربی ملکوں سے جوہری سمجھوتہ میں اہم رول ادا کیا تھاجس کے تحت ،ایران نے جوہری اسلحہ کے لئے یورینیم کی افزودگی ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور اس کے عوض مغربی ملکوں نے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیاں ختم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی۔ اس کے نتیجہ میں ایران کی معیشت ، آزاد ہوئی اور مغرب کے ساتھ اقتصادی روابط بحال ہوئے۔ ایران کی معیشت مستحکم ہوئی ہے اور بڑے پیمانہ پر مغربی کمپنیوں کے ساتھ سودوں سے ایران کو وافر آمدنی ہوئی اور ملک میں روزگار کے مواقعوں میں غیر معمولی اضافہ ہواہے ۔
حسن روحانی کے صدر منتخب ہونے سے پہلے ایران میں بے روزگاری کی شرح ساڑھے پندرہ فی صد تھی لیکن جوہری سمجھوتہ کے نتیجہ میں اقتصادی پابندیوں کے خاتمہ کے بعد بے روزگاری کی شرح میں دس فی صد تک کمی ہوئی ہے۔
حسن روحانی گذشتہ سولہ سال تک ایران کی قومی سلامتی کاونسل کے سیکریٹری رہ چکے ہیں ۔ حسن روحانی نے قم میں مذہبی تعلیم حاصل کی ہے اور انقلاب سے پہلے انہوں نے تہران یونیورسٹی سے قانون کی تعلیم حاصل کی تھی اور گلاسگو کی کیلوڈونین یونیورسٹی سے شرعی قانون میں لچک کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی تھی۔ وہ ایک عرصہ پیرس میں آیت اللہ خمینی کی جلا وطنی کے دوراں ان کے ساتھ رہے ہیں۔
یہ صدارتی انتخاب در اصل حسن روحانی کے دور کے بارے میں ریفرنڈم قرار دیا جا رہا ہے جس میں ساڑھے پانچ کروڑ رائے دہندگان یہ فیصلہ کریں گے کہ آیا وہ اعتدال پسند اصلاحات کا دور پسند کرتے ہیں یا قدامت پسند ی کو ترجیع دیتے ہیں جس کی علامت حسن روحانی کے مد مقابل 56سالہ ابراہیم ریئسی ہیں جنہیں رہبر معظم خامنہ ای کی حمایت حاصل ہے، اور اسی بناء پرانہیں خامنہ ای کا ممکنہ جانشین تصور کیا جاتا ہے۔
اگر وہ صدارتی انتخاب میں کامیاب رہے تو بلا شبہ یہ کامیابی ان کے رہبر معظم کے جانشین بننے کی راہ ہموار کر دے گی۔ قدامت پسندی کی امیج کے علاوہ ابرہیم ریئسی کے دامن پر یہ داغ نمایاں ہے کہ وہ 1988 میں ان چار شرعی ججوں میں شامل تھے جنہوں نے انقلاب کے مخالفین ، تودہ پارٹی کے کمیونسٹوں اور فدائیں خلق کے اراکین کو بڑے پیمانے پر سزائے موت دی تھی۔ یہ جج ،’’ موت کمیٹی ‘‘کے اراکین کہلاتے تھے ۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ ان ججوں نے چار ہزار سے زیادہ افراد کو سزائے موت دی تھی ، لیکن بعض حلقے کہتے ہیں کہ انہوں نے اس سے کہیں زیادہ افراد کو موت کی سزا دی تھی جن کی تعداد دس ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔
ابراہیم ریئسی کا تعلق ، مشہد کے ممتاز مذہبی گھرانے سے ہے۔مذہبی تعلیم انہوں نے حسن روحانی کی طرح قم میں حاصل کی ہے۔ وہ امام رضا کے روضہ کے نگران اعلی ہیں اور مشہور خیراتی ادارے ، آستان قدص رضاوی کے سر پرست ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران زیادہ زور غریبوں کی فلاح و بہبود پر دیا ہے۔ ابراہیم ریئسی ، بااثر اور نہایت طاقت ور مجلس خبرگاں کے رکن ہیں جو رہبر معظم خامنہ ای کے جانشین کا انتخاب کرے گی۔
غرض صدارتی انتخاب در اصل ، اصلاح پسندی اور قدامت پسندی کے درمیان ہے اور یوں ایران کی سیاست کا مستقبل متعین کرے گا۔
♦