خالد احمد: ایک حقیقی مدیر

امتیاز عالم

خالد احمد ، اب نہیں رہے، یوں مجھے آج ان کی موت کی افسوسناک خبر ملی۔ وہ فرنٹیئر پوسٹ لاہور میں میرے ایڈیٹر تھے اور میں نے ان سے سیکھا تھا کہ اداریہ کیسے لکھا جاتا ہے۔ ویو پوائنٹ میں میرے مضامین پڑھتے ہوئے، انہوں نے مجھے ادارتی بورڈ میں شامل ہونے کی پیش کش کی جو میں نے قبول کرلی۔ انہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز پاکستان ٹائمز، ویو پوائنٹس سے کیا اور دی نیشن، دی فرنٹیئر پوسٹ، دی ڈیلی ٹائمز، ساؤتھ ایشین جرنل اور دی فرائیڈے ٹائمز میں بطور ایڈیٹر کام کیا۔ وہ برصغیر میں امن اور جنوبی ایشیا کی معاشی یونین کے لیئے سافما کو نظریاتی مہمیز پہنچاتے رہے اور ساوُتھ ایشین میڈیا سکول کو چلاتے رہے۔ اسی طرح وہ ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں ایک ممتاز سفارت کار اور محقق کے شامل رہے۔

ایک لبرل دانشور اور شائستہ آداب کے ایسے شخص تھے جنہوں نے اپنے پیچھے ایک سیکولر لبرل جمہوریہ اور روشن خیالی کا نامکمل ایجنڈا چھوڑا ہے۔ خالد احمد ایک لبرل ڈیموکریٹک وژن کا مظہر تھے اور روشن خیالی کے مستقل پیروکار تھے۔ میں جنوبی ایشیاء کے اعلیٰ مدیروں سے ملا ہوں، لیکن کسی کو بھی ان جیسا باعلم اور باوصف نہیں پایا۔ وہ ایک صوفی منش انسان تھے اور کبھی انہیں سوٹ بوٹ میں نہیں دیکھا گیا۔ وہ ہر وقت ٹریک سوٹ میں ملبوس رہتے۔ نہ رعونت، نہ شیخی اور نہ غرور۔

کتابوں سے انہیں جنون کی حد تک پیار تھا۔ پاکستان میں کسی اور نے اتنی کتابوں کا جائزہ نہیں لیا جتنا خالد احمد نے کیا۔ تقریباً ہر ہفتے وہ کسی نہ کسی کتاب کو ریویو ضرور کرتے رہے۔ الفاظ کی جڑوں اور زبانوں میں ان کے باہمی ربط کے بارے میں ان کا شوق و شوق قابل ذکر تھا۔ انہیں الفاظ کی گہرائیوں اور اسرار اور ان کے مختلف زبانوں کے متبادل الفاظ کے باہمی لسانی و علمی تعلق کو دیکھنے کا جنون تھا۔ ادارتی بورڈ میں ہم مسائل کو اٹھاتے تھے اور خالد کے ساتھ نہ ختم ہونے والی بحثیں ہوتی تھیں۔ وہ ہمیشہ اپنے انسائیکلوپیڈک علم سے گفتگو کو مزید تقویت دیتے تھے۔ غالباً ان سے بڑا فرد کے حقوق و آزادیوں کا مبلغ پاکستان میں ان سے بڑھ کر کوئ نہ تھا۔ ان کا ھمارا مجادلہ نیو لبرل معیشت اور آزاد منڈی کے خوفناک چلن پر بہت رہتا۔ لیکن وہ عوام کی معاشی، سیاسی اور سماجی حقوق کے داعی رہے۔

انہوں نے گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجویشن کیا اور ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی ادب پڑھایا۔ پھر سی ایس ایس کے مقابلے کے امتحان میں کامیاب ہونے پر وہ فارن سروس میں شامل ہو گئے۔ وہ ماسکو میں پاکستانی سفارت خانے میں بطور قونصلر کام کرتے رہے۔ ڈاکٹر در شہوار کے ساتھ انکی شادی ہوئی اور انہوں نے اپنے پیچھے ایک بیٹا چھوڑا ہے۔

خالد ایک باکمال مصنف تھے اور انہوں نے ہزاروں اداریے اور مضامین لکھے۔ انہوں نے تقریباً نصف درجن کتابیں تصنیف کیں، جن میں لفظوں کے لیے لفظ، نظریاتی نقاب کے پیچھے پاکستان‘ (عظیم مردوں کے بارے میں حقائق جنہیں ہم نہیں جاننا چاہتے)، فرقہ وارانہ جنگ: پاکستان کا سنیشیعہ تشدد، اے این این کے نقطہ نظر کا موازنہ اور تجزیاتی نقطہ نظر اور مائیکرو ایل ای ڈی ڈیوائسز اور سسٹمز۔

ان کی بنیادی توجہ ریاست کو مذہب سے الگ کرنے پر تھی۔ انہوں نے فرقہ واریت، دہشت گردی اور مذہبی جنونیت کا بھرپور ناقدانہ تجزیہ کیا۔

وہ واقعی ایک پیارے دوست تھے جن سے میں نے بہت کچھ سیکھا اور کئی امور پر ان سے اختلاف بھی کیا۔ وہ ہمیشہ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ گھلے ملے رہے کہ مذہبی دائیں بازو کے دانشوروں کے ساتھ ان کی زیادہ ٹھنڈی نہیں تھی۔آپ یہ کہ سکتے ہیں کہ خالد احمد پاکستان میں لبرل ازم کے حقیقی داعی تھے۔

 ♥

Comments are closed.