فرحت قاضی
ایک بندہ خدا جب ہمیں باربار
دھوکے دیتا ہے
تو
پھر ہم اسے دھوکے باز کہتے ہیں
ہمارے سماج میں شک اور گمان کو ایمان کا ضیاع سمجھا جاتا ہے
مگرپولیس اہلکار کی تفتیش کا پہلا نقطہ اور آغاز اسی سے ہوتا ہے جبکہ بعض فلاسفہ نے اسے اپنے فلسفہ کا موضو ع بنایا ہوا ہے شک کی ہماری زندگی میں کیا اہمیت اور افادیت ہے اس کا احساس ہمیں روزمرہ واقعات یاد دلاتے رہتے ہیں اس ایک واقعہ کو ہی لیتے ہیں
کالونی میں قتل ہوگیا ہے
پولیس کا ایک نوآموز اہلکار تفتیش کی نیت و ارادے سے آتا ہے وہ مقتول کی بیوی کے پاس بیٹھتا ہے جس کی آنکھیں روتے روتے سوجھ گئی ہیں بیوہ سے اظہار ہمدردی کرتا ہے
چارپائیوں میں ایک پر عورت کا باپ بیٹھا ہوا ہے جس کے لباس و پوشاک سے ہی نہیں چہرے اور بول چال سے بھی شرافت ٹپک رہی ہے ایک نہیں دو بار حج کرچکا ہے اور نام کا آغاز الحاج سے ہوتا ہے اس کے حلیے اور صورت سے بھی پریشانی عیاں ہے چنانچہ اہلکار اسے فہرست سے خارج کردیتا ہے
بیوہ کے بھائی کو دیکھتا ہے اس کا بھی قریب قریب وہی حال ہے اہلکار سوچتا ہے بھائی بھی دکھی ہے
مقتول کے چاچا اور ماموں کے بارے میں پولیس اہلکار کو معلوم ہے کہ ایک بینکار تو دوسرے کا مین بازار میں تھوک کاروبار ہے علاوہ ازیں محلے کے امام مسجد اور میاں کو بھی مشکوک افراد کی لسٹ سے اس خیال سے نکال باہر پھینک دیتا ہے کہ بالآخر ایک امامت کرتا ہے اور دوسرا بھی صاحب عزت اور محترم شخصیت ہے اور ان کے بارے میں ایسا سوچنا بھی گناہ ہے
اسی آبادی میں نماز پنجگانہ کا پابند اور ہر بات پر اللہ اللہ کا ورود کرنے والا ہے وہ بڑوں سے بڑے ادب و احترام اور چھوٹوں سے بڑے چاؤ سے ملتا ہے بوقت ضرورت غریبوں کی مدد اور داد رسی بھی کرتا ہے اپنی جیب کے پیسوں سے درجن بھر غریب بچیوں کی شادی کرواچکا ہے ایک فلاحی ٹرسٹ بھی چلاتا ہے اس کا ہر گھر میں ایسے آنا جانا ہے گویا وہ ان کا کوئی قریب ترین عزیز اور رشتہ دار ہو یا گھر کا ہی فرد ہو
ملازم کا دائرہ تحقیق تنگ سے تنگ ہوتا چلا جاتا ہے اور سوئی ایک ایسے نوجوان پر آکر ٹک جاتی ہے جو سگریٹ پیتاہے جھوٹ بولتاہے کبھی مسجد گیا ہے اور نہ ہی عبادت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے آمدنی کے ذرائع معلوم نہیں سرگرمیاں بھی پراسرار لگتی ہیں القصہ لباس،رہن سہن،اٹھنا بیٹھنا اور روزگار یہ سب ایک ہی جانب اشارہ کرتے ہیں
کیا اہلکار نے حقیقت کو پالیا ہے اور قاتل اس کے ہاتھ لگ گیا ہے
ایک دوسرا پولیس اہلکار آتا ہے اس کی ملازمت کو کئی برس ہوچکے ہیں یہ تجربہ کار اور جہاندیدہ ہے وہ اپنی جستجو اور تفتیش کی ابتداء ہی مقتول کی بیوہ سے کرتا ہے مقتول کے قریب ترین رشتہ داروں اور گہرے دوستوں سے ملتا اور پوچھ گچھ کرتا ہے اور یہ دیکھتا ہے
قتل سے کس کو کیا اور کتنا فائدہ پہنچنے کا امکان ہے
کس سے کاروباری لین دین تھا
اور جو شخص جتنا پاک باز نظر آتا ہے اتنا ہی اس پر شک و شبہ کرتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے
کہ چور اپنے سائے سے بھی ڈرتا ہے
اور لوگ اپنے کاروبار کی مناسبت سے اپنا حلیہ بناتے، بگاڑتے اور اداکاری کرتے ہیں کسی کا لباس،رہن سہن،بات چیت،حلیہ اور کاروبار اچھے اور برے ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ہوتا ہے اگر ہم یہ سوچنے لگیں کہ چونکہ یہ مقتول کا بھائی ہے لہٰذا قاتل نہیں ہوسکتا ہے یہ اس کا جگری دوست ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے تو مجرم تک پہنچنا دشوار ہوگا
منطق میں انہیں بت کہا گیا ہے اور یہ بت حقائق جاننے میں سب سے بڑی رکاؤٹ ہوتے ہیں چنانچہ یہ رشتوں کے بت ہیں
یہ عقائد کے بت ہیں
یہ ادارہ جاتی بت ہیں
یہ تقدس کے بت ہیں
البتہ بعض نتائج تحقیق و تفتیش کے حوالے سے ممد و معاون ہوتے ہیں جو کے ہم ایک عمل سے اخذ کرتے ہیں
ایک علاقہ یا خاندان کے افراد جرائم پیشہ ہیں اسی طرح بعض نوکریاں اور کاروبار بھی انسان کے حوالے سے بتاتے ہیں امام مسجد کے بارے میں ہمارا تصور ہے کہ وہ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ ہوتا ہے اور طوائف چال باز ہوتی ہے مگر اس حوالے یا ان حوالوں کو بت نہیں بنانا چاہئے بہر کیف، شک کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے
جرائم پیشہ عناصر قانون سے خود کو بچانے کے لئے روپ بدلتے رہتے ہیں اور جتنا جتنا قانون اور اس کے رکھوالے تحقیق و تفتیش کے نت نئے نسخے سوچتے اور وضح کرتے ہیں یہ بھی بہروپ اور چولابدل بدل کر واردات کرتے ہیں
یہ تو آپ نے سنا ہوگا کہ کراچی میں ایک جیب کترا جیب سے پیسہ نکال لیتا اور مالک کو احساس ہوتا تو وہ جیب کترا آگے اور مالک اور عوام اس کو پکڑنے کے لئے دوڑ پڑتے تھے بعد ازاں جیب کاٹنے کے بعد جب مالک اس کے پیچھے بھاگتا اور چور چور کرتا تو چور بھی ہاتھ سے آگے کو اشارہ کرتا اور دوڑتے ہوئے شور مچاتا:
’’پکڑو،پکڑو، چور ،چور‘‘
عوام شش و پنج میں پڑ جاتے تھے
اور اب چور گروہ کی شکل میں بس میں داخل ہوتے ہیں اور کوئی ایک جیب کترتے ہوئے پکڑا جاتا ہے تو باقی مدد کو آگے آجاتے ہیں اپنے ساتھی کو دوچار مکے اور اتنی ہی تعداد میں لاتیں مارتے ہیں ہاتھ سے پکڑ کر گاڑی سے اتارتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے ایک جانب چل پڑتے ہیں کہ اسے اس کے کئے کی سزا دلانے کے لئے تھانے جاکر پولیس کے حوالے کرنا ضروری ہے
اسی طرح سفید پوشوں کی واردات کے اپنے رنگ و روپ ہیں ایک ہندی فلم میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے
اس دنیا میں سب چورہی چور
کوئی بڑا چورکوئی چھوٹا چور
ہم یقین سے شک کی راہ پر گامزن ہیں
ملکی حالات اور واقعات بھی ہمارے یقین اور اعتماد کو ڈگمگاتے رہتے ہیں ایک زمانہ تھا جب ہر انسان دوسرے پر اعتماد کرتا تھا مگر اب سو روپ میں بھی پہچان لیا جاتا ہے یا اسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے پاکستانی سیاست کا یہ حال تھا کہ عوام ملک کی جماعتوں میں بٹے ہوئے تھے اور پارٹی کی خاطر ہر قربانی دینے کو ہمہ وقت کمر بستہ رہتے تھے ملک کی قریب قریب ہر جماعت کو اقتدار نصیب ہوا منتخب نمائندوں کے ہاتھوں میں وزارتیں بھی آئیں مگر عوام کے ہاتھ سکندر اعظم کی مانند خالی ہی رہے
علوم و فنون اور تحقیق و جستجو کے فروغ کے ساتھ انسانوں کی مانند کتب کو بھی اب شک و شبہ کی نگاہ سے پڑھااور پرکھا جاتا ہے اس کی بڑی مثال تاریخی کتب اور شخصیات ہیں ایک مسلم مورخ تاریخ پر قلم اٹھاتا ہے تو مسلم فاتح جنرل کو تیر و تلوار کا دھنی،اخلاق کا اعلیٰ ترین نمونہ، نجات دہندہ اور مفتوح قوم کے لئے اللّہ کی رحمت اور نعمت غیر مترقبہ القصہ اس کی تعریف و توصیف میں سیکڑوں صفحات سیاہ کردیتا ہے
اسی مسلم بادشاہ کے حوالے سے ایک غیر مسلم تاریخ دان واقعات ضبط تحریر میں لاتا ہے تو اسے حملہ آور،غاصب اور جارح ہی نہیں لکھتا ہے بلکہ اسے ہر پہلو اور زاویہ سے علاقے اور عوام کے لئے عذاب، برا اور انتہائی برا ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتا ہے اور جب تاریخ کا مبتدی پڑھتا ہے تو اس کے یقین سے ڈھولتی ہوئی پالکی بن جاتا ہے
جہاں عوام کا یقین یوں بھی ڈگمگا رہا ہے کہ پہلے وہ جس مزدور یونین لیڈر کے قدم سے قدم ملاکر چلتے تھے اب اسی کو تصور ہی تصور میں مالک سے سمجھوتہ کرتے ہوئے پاتے ہیں سیاست دان ایک دوسرے کو چت کرتے تو جیتنے والے کے پیروکار خوشی سے پھولے نہیں سماتے تھے مگر اب وہ سیاست دان ایک ہی کنبے کے افراد نظر آتے ہیں وہ جن ہاتھوں کو یتیموں کے سروں پر ہمدردی اور پیار سے تسلی دیتے ہوئے دیکھتے ہیں توان ہی کو وہ اپنی گردن پر بھی محسوس کرتے ہیں وہ رحم دلی،خیرات اور صدقات، سکول اور ہسپتال کی تعمیر اور افتتاح کرنے والے کو تو حقیقی نمائندہ کہتے تھے مگر اب اسے طوفان سے قدرے پہلے کاخوشگوار جھونکا قرار دیتے ہیں
ان میں دبے پاؤں طبقاتی تصورات رینگ رہے ہیں
سچ معلوم کرنا نہایت کھٹن اور جان لیوا کام ہے یہ کانٹوں کا بستر ہے کیونکہ اس کے لئے شک کا پٹ کھولنا پڑتا ہے اور جس پر سب سے پہلے نظر پڑتی ہے وہ اپنا عزیز ترین
اپنا بھائی
اپنا ہی گہرا دوست
اور
ہم مذہب،ہم عقیدہ اور ہم وطن ہی ہوتا ہے
♣