پاکستان کی جمہوریت پر فوج حاوی ہے

غضنفر علی خان

وزیراعظم نے پچھلے ہفتہ نئی دہلی میں ایک سہ ر وزہ کانفرنس سے خطاب کے دوران پڑوسی ممالک سے ملک کے تعلقات کے بارے میں اظہار خیال کیا ۔ مسٹر مودی کا کہنا ہے کہ اکیلا ہندوستان ہی امن اور دوستی کی راہ پر نہیں چل سکتا ۔ پاکستان کا راست حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستان خود کو پہلے دہشت گردی سے بے تعلق کرے اور امن کے راستہ پر چلے۔

ان کا مطلب یہ تھا کہ دونوں پڑوسی ممالک میں امن اور دوستی اسی صورت میں قائم ہوسکتی ہے جبکہ دونوں ممالک صحیح جذبہ سے امن کی نہ صرف خو اہش رکھیں بلکہ دوستی اور ان کے قیام کیلئے اپنی اپنی سرحدوں سے دہشت گردی کا خاتمہ کریں۔ یہ بھی درست بات ہے کہ ’’تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج سکتی۔

پاکستان کی جانب سے مسلسل سرحدی خلاف ورزی ، گولہ باری اور ہندوستان کے سرحدی علاقوں میں معصوم شہریوں کی ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس ماحول میں صرف ہندوستان کی جانب سے قیام امن کی کوششیں کیسے کامیاب ہوسکتی ہیں۔ دہشت گردی کی وارداتیں اب تو جیسے معمول بن گئی ہے۔ اڑی کے واقعہ نے تو یہ ثابت کردیا کہ دہشت گردی پر جو پا کستان میں پروان چڑھ رہی ہے قابو پانے والی کوئی طاقت پاکستان میں نہیں ہے ۔

جہاں تک پاکستانی حکومت کا تعلق ہے وہ جمہوری ہونے کے با وجود پاکستانی فوج کے زیر اثر ہمیشہ رہی ہے ۔ ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے کہ فوج نے پاکستان میں جو چاہا وہی ہوا ، پاکستانی جمہوریت کی خامی یہ ہے کہ اس نے کبھی جمہوری اداروں کو پروان چڑھنے نہ دیا ۔ کبھی صحافت تو کبھی عدلیہ کو غیر جمہوری اور آمرانہ انداز میں کچل دیا گیا ۔ یہ بات آج کی نہیں ہے بلکہ جمہوریت کی کمزوری اور فوج کی بالادستی پاکستان کی تاریخ کا ایک حصہ بن چکی ہے ۔ اب یہ فاصلے جو آرمی اور حکومت کے درمیان ہونے چاہئے دوبارہ پیدا نہیں ہوسکتے ۔

پاکستان سے جس دہشت گردی کو ختم کر کے امن کی راہ اختیار کرنے کا مسٹر مودی مطالبہ کر رہے ہیں ، وہ پاکستان کی جمہوری حکومت کے بس کی بات نہیں۔ دہشت گردی کو ختم کرنا یا اس پر قابو پانا ممکن نظر نہیں آتا۔ پھر کس امید پر کہا جارہا ہے کہ جب تک پاکستان انتہا پسندی اور دہشت گردی پر قابو نہیں پاتا یا یہ راہ ترک نہیں کرتا ہند۔پاک تعلقات کے بہتر اور نارمل ہونے کی امید نہیں کی جاسکتی۔

جہاں تک ہندوستان کی جانب سے دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی بات ہے تو یہ کوشش ہندوستان نے بارہا کی ہے۔ ہر مرتبہ دونوں ممالک میں دوستی کا ماحول پیدا ضرور ہوتا ہے لیکن پھر کوئی نہ کوئی حرکت ایسی ہوتی ہے کہ دوستی کا ماحول کشیدگی اور بے اعتمادی کی فضاء میں بدل جاتا ہے اور ایسا ہونے میں ہندوستان کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ پاکستان میں وہ طاقتیں کسی بھی ماحول پر حاوی ہوجائیں جو بندوق کی زبان میں بات کرتی ہیں۔

مسٹر مودی نے ہندوستان کی خارجہ پالیسی اور قریبی پڑوسی ممالک سے تعلقات کی پالیسی کا ایک خاکہ 17 جنوری 2017 کو دہلی میں منعقدہ ایک سہ روزہ کانفرنس میں پیش کیا جو ان کی حکومت کے جغرافیائی سیاسی نمائندہ اقدام کے سلسلہ میں کہلاتی ہے ۔ جب تک پاکستان امن کے سفر کا ہمراہی نہیں بنتا تنہا ہندوستان ہی سفر نہیں کرسکتا اور اگر اس سلسلہ میں کوئی کوشش ہوتی بھی ہے تو یہ ’’سعی لاحاصل‘‘ ہوگی ۔ امن صرف تمناؤں اور خواہشات سے پیدا نہیں ہوتا بلکہ اس کے لئے اخلاص اور ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے ۔

یہ ضروری ہوتا ہے کہ ممالک باہمی طور پر ایک دوسرے کی مشکلات کو سمجھیں اور ’’لو اور دو‘‘ کی پالیسی پر عمل کریں۔ کسی منزل تک پہنچنے کیلئے فریقین کو زحمت سفر برداشت کرنی پڑتی ہے۔ پا کستان کے داخلی حا لات بھی اس کی ایک ایسی لاعلاج کمزوری ہے جس کا کوئی تدارک نہیں ہے ۔ پاکستان کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر پڑوسی ممالک سے ہمارے تعلقات نہایت دوستانہ ہے۔ کسی بھی جنوبی ایشیائی  ملک سے ہمارا کوئی اختلاف نہیں ہے ۔ صرف پاکستان ہی کیوں ایسا ملک ہے جس سے ہم کو ہمیشہ کوئی نہ کوئی شکایت رہتی ہے ۔ صرف یہی وجہ ہے کہ امن کی راہ پر ہمیشہ ہندوستان نے تنہا ہی سفر کیا ہے ۔ اگر کبھی پاکستان نے ہم قدمی بھی کی تو یہ صرف چند قدم ہی تک محدود رہی۔

پا کستان کے علاوہ چین بھی ہمارا ایک پڑ وسی ملک ہے جس سے 1960 سے لیکر آج تک ہمارے تعلقات کشیدہ ہی نہیں پیچیدہ بھی رہے ۔ مسٹر مودی نے رائسینا مذاکرات ٹو میں یہ بڑے کام کی بات کہی کہ ’’بڑے پڑوسیوں کے درمیان اختلافات کا ہونا کوئی غیر فطری بات نہیں ہے‘‘ ویسے تو کسی بھی پڑوسی سے اختلاف بروقت ناواجبی یا غیر فطری نہیں ہوسکتا ۔ بشرطیکہ باہمی تعلقات ہر قسم کے شکوک و شبہات سے پاک ہوں۔ بین ا لاقوامی روابط بے حد حساس ہوتے ہیں۔ ان پر بے اعتمادی کی بارود سے نکلنے والی ایک چنگاری ہی دھماکہ پیدا کردیتی ہے ۔

دنیا میں کئی پڑوسی ممالک میں باہمی تعلق اگر برسوں سے قائم ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ممالک ایک دوسرے کے نازک اور حساس مسائل کو خوب سمجھتے ہیں اور اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ حساس نوعیت کے مسائل  کو کبھی ہوا نہ دی جائے لیکن چین اور ہندوستان کے تعلق سے یہ بات نہیں کہی جاسکی۔ ہندوستان پر 1962 ء کی جنگ مسلط کردی گئی تھی ۔ ہماری فوجی طاقت 60 ء کے دہائی میں اتنی زیادہ نہیں تھی کہ ہم قدم جماکر چین کا مقابلہ کرتے ۔

دوسری بات یہ بھی تھی کہ یہ دہائی جواہر لال نہرو کی حکمرانی کا تھا اور پنڈت جی چین پر ایک پڑوسی کی حیثیت سے بہت زیادہ بھروسہ کرتے تھے لیکن اعتماد شکنی کرتے ہوئے چین نے دونوں ممالک کی دوستی کی پیٹھ میں خنجر گھونپ دیا تھا ۔ اس کے بعد بھی چین نے کئی مرتبہ ہند۔ چین سرحد کی خلاف ورزی کی آج بھی ہماری سرحدی ریاست ہماچل پردیش میں چین کی مداخلت کا سلسلہ جاری ہے ۔

اس پس منظر کو فراموش کرتے ہوئے وزیراعظم نے اپنی تقریر میں یہ کیسے کہہ دیا کہ پڑوسی ممالک اگر ایک دوسرے کے حساس مسائل کو سمجھیں اور ایک دوسرے کے تعلق خاطر کو ملحوظ رکھیں تو تعلقات میں کبھی کوئی خرابی نہیں ہوگی۔ پڑوسیوں میں اختلافات کا ہونا کوئی نئی بات یا کوئی غیر معمولی ، غیر فطری بات کا  نہ ہونا ۔ اس صورت میں ممکن ہے جبکہ چین کو یہ کم سے کم اندازہ ہو کہ ہندوستان اور چین کے درمیان صدیوں پرانے نظریاتی جذباتی تعلقات رہے ہیں اور آج ہندوستان اس علاقہ  کا ایک تیز رفتار ترقی پذیر ملک  ہے ۔

چین کی کمیونسٹ حکومت کے برعکس ہندوستان میں ایک مضبوط اور طاقتور جمہوریت ہے ۔ یہاں ایک دستوری حکومت ہے ۔ ساری دنیا ہماری جمہوریت کا لوہا مانتی ہے ۔ ترقی کے بعد ان میں بھی ہندوستان کسی سے کم نہیں ان تمام حقائق کے باوجود صرف طاقت کے بل بوتے پر چین کی جارحانہ پالیسی (ہندوستان کے تعلق سے اس کا کوئی جواز نہیں ہے )۔

مودی کا یہ کہنا کہ ہندوستان جنوبی ایشیا کے تمام ممالک بشمول افغانستان اور ایران اور ہمالیائی مملکتوں سے دوستانہ اور اچھے پڑوسیوں جیسے تعلقات رکھتا ہے اور رکھنا چاہتا ہے ، درست ہے لیکن اس سلسلہ میں چین اور پاکستان  ہمارے ایسے پڑوسی ہیں جن سے ہمارے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے۔ موجودہ جغرافیائی اور سیاسی پس منظر میں دونوں ممالک کم سے کم ان حالات میں اچھے پڑوسی نہیں کہلاسکتے ۔ خاص طور پر اس لئے بھی کہ دونوں کے تیور جارحانہ اور دونوں کو اپنی فوجی طاقت پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ ہے ۔

پاکستان سے جب بھی ضرورت ہوگی ہم لوہا لے سکتے ہیں ۔ رہا چین کا مسئلہ تو اگر ہم اپنی دفاعی اور فوجی طاقت کو مستحکم کریں تو چین سے بھی مقابلہ کیا جاسکتا ہے ۔ اس کیلئے چین یا پاکستان سے معذرت خواہ ہوکر امن طلب کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔

روزنامہ سیاست، حیدرآباد، انڈیا

Comments are closed.