لاپتہ بلاگرز کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے کے لیے درخواست

پاکستان میں لاپتہ بلاگرز کے کیس کے حوالے سے ایک نیا موڑ آ گیا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد کے ایک شہری نے ان سول سوسائٹی کارکنوں کے خلاف توہین رسالت کے الزام میں مقدمہ درج کرانے کے لیے پولیس کو ایک درخواست دے دی ہے۔

ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے اس شہری محمد طاہر نے کہا، ’’میں نے ان بلاگرز کے خلاف اسلام آباد کے سیکٹر آئی ایٹ کے تھانے میں ایک درخواست جمع کرائی ہے، جس میں سرکار سے استدعا کی گئی ہے کہ ان بلاگرز کے خلاف توہین رسالت کا مقدمہ درج کیا جائے۔ میری درخواست وصول کر لی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ ایف آئی آر بھی جلد ہی لکھ دی جائے گی‘‘۔

درخواست گزار کے وکیل اسد طارق، جو ماضی میں لال مسجد واقعے میں اور گمشدہ افراد کے وکیل بھی رہے ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم نے درخواست دے دی ہے۔ اصولی طور پر اس کے بعد کارروائی شروع ہونا چاہیے تھی، لیکن ہمیں بتایا گیا ہے کہ تھانہ ایس ایچ او نے یہ درخواست پولیس کی قانونی برانچ کو بھیج دی ہے۔ میرے مؤکل نے مجھے ہدایت کی ہے کہ اگر دو دنوں میں ایف آئی آر درج نہ کی گئی، تو سیشن کورٹ سے رجوع کیا جائے کیونکہ ہم ہر حال میں ایف آئی آر کا اندراج چاہتے ہیں، تاکہ جو لوگ ان بلاگرزکی حمایت کر رہے ہیں، انہیں بھی اور عوام کو بھی علم ہو سکے کہ یہ بلاگرز انٹرنیٹ پر کس طرح کا مواد پوسٹ کر رہے تھے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں اسد طارق نے کہا، ’’اس طرح کے معاملے میں اعلٰی پولیس افسران سے مشورہ کیا جاتا ہے اور وہ وزارتِ داخلہ سے رابطہ کرتے ہیں۔ میرے خیال میں اسی لیے ایف آئی آر کے اندراج میں دیر ہو رہی ہے‘‘۔

اسلام آباد پولیس کو دی گئی اس درخواست پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی کارکن جبران ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پہلے انٹرنیٹ پر کچھ فیس بک پیجز اور کچھ سائٹس کے ذریعے ان بلاگرز کے خلاف پراپیگنڈا کرایا گیا۔ یہاں تک کہ اُن صحافیوں اوراینکرز کے خلاف بھی پراپیگنڈا مہم چلائی گئی ، جنہوں نے اس مسئلے پر کالم لکھے یا ٹی وی پروگرام کیے۔ اس پراپیگنڈا مہم کے ذریعے یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ میں بھی ان بلاگرز کے ساتھ ہوں۔ کچھ ٹی وی اینکرز بھی اس مہم کا حصہ ہیں۔

میں اس مہم کے حوالے سے سپریم کورٹ کو آگاہ کر چکا ہوں۔ اس طرح کی ایف آئی آرز ماضی میں بھی درج کرائی گئیں۔ ظاہر ہے جب ایف آئی آر درج ہو جائے گی، تو تمام جہادی اور فرقہ ورانہ تنظیمیں سڑکوں پر ہوں گی‘‘۔

اسی بارے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سندھ شاخ کے وائس چیئرمین اسد بٹ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ درخواست انہی عناصر کی طرف سے دی گئی ہے، جو ماضی میں لال مسجد والوں کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ یہ لوگوں کو ڈرانے دھمکانے کی ایک کوشش ہے۔ اسی وجہ سے تو ہم یہ کہتے ہیں کہ توہین رسالت کے قانون میں مناسب ترمیم کی جائے اور اس کے غلط استعمال کو روکا جائے۔ یہ اس لیے بھی کیا گیا ہے کہ حکومت کو اندازہ نہیں تھا کہ ان لوگوں کی گمشدگی کے بعد سول سوسائٹی کی طرف سے اتنا سخت رد عمل سامنے آئے گا، تو، حکومت اب فرار کا راستہ ڈھونڈ رہی ہے‘‘۔

ایک سوال کے جواب میں اسد بٹ نے کہا، ’’اب حکومت ان کی گرفتاری کہیں سے ظاہر کر دے گی۔ ہمارے ہاں اب تو یہ روایت بن گئی ہے کہ پہلے لوگوں کو اٹھاؤ اور کئی ماہ تک انہیں غیر اعلانیہ طور پر اپنے پاس رکھنے کے بعد ان کی گرفتاری ظاہر کر دو۔ بعض واقعات میں تو گمشدہ افراد کی گرفتاریاں چھ چھ مہینے بعد بھی ظاہر کی گئی ہیں‘‘۔

اس موضوع پر مستقبل کے لائحہ عمل کے حوالے سے اسد بٹ نے کہا، ’’لوگ ان چیزوں سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔ ہم اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔ آج سول سوسائٹی کی کئی تنظیموں کا اجلاس کراچی میں ہو رہا ہے۔ ہم انیس جنوری کو احتجاج کریں گے اور اس کے بعد ایک باقاعدہ اور جامع احتجاجی مہم چلائی جائے گی‘‘۔

DW

Comments are closed.