بنگلہ دیشی شہری کی دو بیٹوں، پوتے کے قتلِ رحم کی اپیل

بنگلہ دیش کے ایک غریب شہری نے اپنے دو لاعلاج بیٹوں اور ایک پوتے کے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر قتلِ رحم کی اپیل کر دی ہے۔ اس اپیل کے بعد قدامت پسند بنگلہ دیشی معاشرے میں قتلِ رحم کے موضوع پر شدید عوامی بحث شروع ہو گئی ہے۔

دارالحکومت ڈھاکا سے چوبیس جنوری کے روز موصولہ نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جس شہری نے اپنے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو ترس کھا کر اور طبی وجوہات کی بناء پر موت کی نیند سلا دینے کی اپیل کی ہے، اس کا نام تفضل حسین ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے ان بیمار اہل خانہ کے علاج پر اپنی تمام جمع پونجی خرچ کر چکا ہے اور حکام کو اسے یہ اجازت دی دینا چاہیے کہ ان تینوں کو بیماری اور تکلیف کی زندگی سے نجات دلا دی جائے۔

دنیا کے کئی ملکوں میں ایسے قوانین موجود ہیں کہ اگر کسی مریض کا مرض لاعلاج ہو، وہ بہت تکلیف میں ہو اور وہ مریض خود یا اس کے اہل خانہ بھی چاہتے ہوں تو ڈاکٹر مریض کا علاج بند کر کے، اسے مصنوعی طور پر زندہ رکھنے کی کوششیں ترک کر کے یا پھر زہر کا ٹیکا لگا کر ایسے مریض کی زندگی سے نجات کی خواہش پوری کر سکتے ہیں۔ طبی اصطلاح میں یہ عمل یوتھینزیا کہلاتا ہے، جسے قتلِ رحم بھی کہا جاتا ہے۔ اسی عمل کو ’طبی مدد سے خودکشی‘ کا نام بھی دیا جاتا ہے۔

جنوبی ایشیائی ریاست بنگلہ دیش ایک ایسا بہت غریب لیکن قدامت پسند معاشرہ ہے، جہاں تفضل حسین کی اس اپیل سے پہلے شاید ہی کبھی قتلِ رحم کا کوئی مطالبہ سامنے آیا ہو۔ اسی لیے اب بنگلہ دیش میں اس بارے میں بہت شدید عوامی بحث بھی شروع ہو گئی ہے کہ آیا کسی انسان کی بیماری کے لاعلاج ہونے کی صورت میں اس کے اپنے یا اس کے لواحقین کے کہنے پر اسے ’قتل‘ کیا جا سکتا ہے، چاہے یہ عمل ’قتلِ رحم‘ ہی کیوں نہ ہو۔

تفضل حسین کے بقول وہ برسوں سے اپنے بیٹوں اور پوتے کا علاج کرانے کی کوشش کرتا رہا ہے، اور اس دوران اس نے رقم کا بندوبست کرنے کے لیے ملک کے مغربی دیہی علاقے میں اپنی پھلوں کی دکان بھی بیچ دی اور ان تینوں کو علاج کے لیے بنگلہ دیش کے مختلف شہروں کے علاوہ ہمسایہ ملک بھارت بھی لے کر گیا، جس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا۔

اس بنگلہ دیشی شہری نے روتے ہوئے اے ایف پی کو بتایا، ’’اب میرے پاس کچھ نہیں بچا۔ اب یہ فیصلہ حکومت کو کرنا چاہیے کہ وہ ان شہریوں کا کیا کرنا چاہتی ہے۔ ان تینوں کے دوبارہ صحت مند ہونے کی کوئی امید نہیں اور میں یہ صورت حال مزید برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔

تفضل حسین کے دو بیٹوں، جن کی عمریں 24 اور 13 برس ہیں، اور آٹھ سالہ پوتے کو ان کے جسمانی پٹھوں کی ساخت میں خرابی کی ایک ایسی

بہت کم نظر آنے والی موروثی بیماری لاحق ہے، جو لاعلاج ہے۔ طبی اصطلاح میں اس بیماری کا نام ڈسٹروفی ہے اور اس کے مریضوں کے جسمانی پٹھے بتدریج ناکارہ ہوتے جاتے ہیں۔ اس مرض کے شکار افراد شاذ و نادر ہی 30 سال سے زائد کی عمر تک زندہ رہتے ہیں۔

بنگلہ دیش کا شمار ایشیا کے غریب ترین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں عوام کو کسی بھی قسم کی مفت طبی سہولیات تقریباً حاصل ہی نہیں ہیں اور خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کئی ملین شہریوں کے لیے اکثر علاج معالجے کے اخراجات برداشت کرسکنا ممکن ہی نہیں ہوتا۔ بنگلہ دیش میں ایسے شہریوں کی تعداد کا اندازہ چھ لاکھ لگایا جاتا ہے، جو لاعلاج بیماریوں کا شکار ہیں۔

DW

Comments are closed.