پابندیاں اور ان کی حقیقت

عطاءالرحمن عطائی

روز مرہ کی زندگی میں جب ہماری نظر سماج یا ریاستی قوانین کی لگائی ہوئی پابندیوں پر پڑتی ہے تو ہمارے ذہنوں میں مختلف ، برائیوں ، کے نام گردش کرنے لگتے ہیں مثلا چوری ، سمگلنگ، قتل، زنا، جھوٹ، فراڈ، جسم فروشی، ہیروئن و دیگر نشہ آور اشیا کا کار و بار وغیرہ۔ غرض یہ وہ تمام افعال قبیحہ ہیں جن پر پابندیاں سماج اور ریاستی قوانین کی طرف سے عائد ہیں اور جنہیں معاشرے کا ہر فرد ناجائز اعمال سمجھتا ہے ۔

لیکن جب نظر ذاتی ملکیت کے رنگ میں رنگے انسانی سماجوں کی تاریخ پر پڑتی ہے تو ہر سماج میں یہ برائیاں پابندیوں کے باوجود بہم جاری و ساری رہتی ہیں اور یہی کیفیت موجودہ ریاستوں و معاشروں میں ایک اٹل حقیقت کے طور پر موجود ہے۔

اس حقیقت کی جانکاری کے بعد کہ پابندیوں باوجود برائیاں رکنے کا نام نہیں لیتیں ، تو چند سوالات سر اٹھانے لگتے ہیں۔ کہ در اصل پابندی ہے کیا؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ اس کا کردار کیا ہے؟ اور یہی پابندیاں اپنی تمام تر شدت کے باوجود ان برائیوں کو کیوں روک پاتیں؟ ان تمام سوالات کے جوابات ڈھونڈنے سے پابندی کی حقیقت سمجھ میں آسکتی ہے۔

دراصل پابندیاں انسانی حکمران طبقات کی طرف سے عائد کی گئی ہوتی ہیں جو نہایت پیچیدہ ہوتی ہیں جس کی شکل و ہیئت کو عقائد کا خول چڑھایا گیا ہوتا ہے، مزے کی بات یہ ہے کہ جن برائیوں کا سراغ ہمیں انسانی معاشروں میں ملتا ہے وہ انہی پابندیوں کی وجہ سے ہے جو ان برائیوں کے انسداد کے لئے حکمران طبقات نے معین کئے ہیں۔

آسان الفاظ میں اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ابتدائی سماج میں جب ذاتی ملکیت کی ابتدا ہوئی اور اس اس ذاتی ملکیت کے تحفظ کے لئے مذہبی غلاف کو استعمال کر کہ چوری کو حرام قرار دے دیا گیا۔ اگر اس ذاتی ملکیت کا تحفظ نہ کیا جاتا تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی چوری کی ضرورت نہ پڑتی کیونکہ ذاتی ملکیت میں کچھ افراد کے ساتھ وسائل زیادہ اور کچھ کے ساتھ نہیں ہوتے۔

اس لئے حکمران طبقات نے ذاتی ملکیت کی شکل میں بڑی قانونی چوری کی اور اس کو تسلسل فراہم کیا، دوسری طرف محروم لوگوں کے چھیننے پر پابندی لگادی جس سے ان کے املاک کو قانونی تحفظ ملتا، اس وقت سے لیکر آج تک عوام کی اکثریت وسائل سے محروم رہی ہے اور وہ بے بس ہوکر اپنے طبقے سے چوریاں شروع کرتی ہے، جس کے سبب چوری پر لگائی گئی پابندی بے اثر رہتی ہے۔

سماج میں دوسرا بڑا معمہ قتل پر پابندی کا ہے جس کی حقیقت کچھ یوں ہے۔ اگر حکمران طبقات حکمرانی کے حصول کے لئے اپنی افواج کے ذریعے جتنا بھی بے دریغ قتل عام کریں تو انہیں مقدس جنگوں کا نام دیا جاتا ہے۔ دوسری طرف اگر معاشی نا ہمواریوں کے سبب کہیں قتل ہوتے ہیں یا ان قتلوں کا رخ حکمرانوں کی طرف ہونے لگتا ہے تب حکمران طبقات و ریاستیں سختی سے قتل پر پابندی عائد کراتی ہیں۔

غرض موجودہ یا اس سے پہلے کے سماجوں کی پابندیوں کی حقیقت یہ ہے کہ جو بھی ناجائز کام حکمران طبقات نے اپنے لئے وافر مقدار میں فراہم کرانا ہو تو اس کام پر انہوں نے عوام میں پابندی عقید ے کی شکل میں لگا دی۔

غرض ہمیں موجودہ سماج کی تمام پابندیوں سے منکر ہو جانا چاہئے اور نئے اشتراکی نظام کی بنیاد رکھنی چاہئے جس میں تمام برائیوں کےخاتمے کی یقین دہانی ہے۔ جب برائیاں ختم ہونگی تب جاکر پابندی کی ضرورت بھی نہیں رہے گی۔

Comments are closed.