افغان مہاجرین کی واپسی اور ریاست کی کنفیوزن

12491863_939910766100245_4230327276596795234_oعظمیٰ ناصر

وزیر داخلہ سمیت مختلف حکومتی عہدیداروں کے افغان مہاجرین کے حوالہ سے بیانات سے ریاست کی کنفیوزن کا صاف پتہ چل رہا ہے اور جب ریاستیں کنفیوز ہوں خاص طور پر ا یسے احساس معا ملات میں تو اس کا نقصان قوموں کو اٹھانا پڑتا ہے جو پاکستانی قوم اٹھا رہی ہے اور نہ جانے کب تک اٹھاتی رہے گی ۔

گزشتہ 35 برس کے دوران افغان مہاجرین کی وطن واپسی اوربحالی کے ان گنت منصوبے سامنے آئے مگر اس کا کوئی جامع حل نہیں نکل پایا ۔حال ہی میں مُلا منصور کی ڈرون حملے میں ہلاکت ،افغان، ایران، بھارت راہداری اور طور خم بارڈر کی کشیدگی کے سبب ان دنوں افغان پناہ گزینوں کی واپسی کا ٖغلغلہ پھر برپاہے ۔اوراس معاملے میں بھانت بھانت کی بولیاں سننے کو مل رہی ہیں ۔

مثلاً بلوچستان کے وزیردا خلہ میر سرفراز بگٹی نے فرمایا ہے کہ افغان مہاجرین شرافت سے نہ گئے تو ہم دھکے دے کر نکال دیں گے ،محمود خان اچکزئی کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانیون کا وطن ہے جب تک چاہیں رہیں ۔سرتاج عزیز نے سرکاری ٹی وی پر فرمان جاری کیا ہے کہ افغان مہاجرین کے کیمپ دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں ۔

سرحدی امور کے وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ کہتے ہیں کہ پاکستان اب افغان مہاجرین کی مزید میزبانی نہیں کر سکتا ان کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے ۔۔ان کے سبب مقامی بیروزگاری بڑھ رہی ہے وہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں دس لاکھ سے زائد ملازمتیں اور کام کاج کر رہے ہیں ( مطلب ہر دوسرا افغانی برسرروزگار ہے )اقبال ظفر جھگڑا کا کہنا ہے کہ افغان مہاجرین نہ صرف جرائم میں ملوث ہیں بلکہ خیبر پختون خوا کی معیشت اور ثقا فت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں ۔

اسی دوران وزیر اعظم نے ملک میں قانونی طور پر مقیم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کے قیام میں چھ ماہ تک تو سیع کر دی ہے ۔ جبکہ ان کی رجسٹریشن دستاویزات 30 جون کو ختم ہو چکی ہے ۔گزشتہ برس دسمبر میں بھی اس قیا م میں ا سی حکومت نے چھ ماہ کی توسیع کی تھی ۔اب سوال یہ ہے کہ کتنے افغانی رجسٹر ڈ ہیں ؟ کے پی کے کے وزیر اطلاعات کے مطابق ان کے ریکارڈ کے مطابق ایک لاکھ افغان مہاجرین رجسٹرڈ ہیں۔ پاکستان کے بعد سب سے زیادہ افغان مہاجرین ایران میں پناہ گزین ہیں مگر ایران نے اس حوالے سے بڑی واضح پالیسی بنارکھی ہے ،مہاجرین صرف کیمپوں تک محدود ہیں اور ان کے حوالے سے رنگ برنگ سرکاری بیانات سننے کو نہیں ملتے ۔

مگر پاکستان 35 برس میں افغان مہاجرین پالیسی بنانے میں ناکام رہا ہے ،پاکستان کو پتہ ہی نہیں کتنے افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ،اور کیمپوں کے علا وہ کہاں کہاں مقیم ہیں ۔انہوں نے کیسے اپنے کاغذات بنائے اور پاکستانی نیشنیلٹی حاصل کی ،اور پھر نہ صرف جائیدادیں خرید یں بلکہ وسیع کاروبار کے مالک بھی بنے ۔ایک محتاط اندازے کے مطابق کوئی اٹھارہ سے بیس لاکھ افغان مہاجرین پاکستان میں مقیم ہیں ۔جبکہ رجسٹرڈ مہاجرین کی تعداد مشکل سے 5 لاکھ بنتی ہے ۔ان میں زیادہ تر افغان مہاجرین کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ موجود ہے ۔اور وہ کاروبار اور ملازمتیں کر رہے ہیں۔

ریاست بے بس ہے۔ ایسی ریاست بے بس ہی ہو سکتی ہے جو اٹھارہ برس سے ملک میں مردم شماری کروانے میں ناکام رہی ہو ۔ریاست کی پوری مشینری اندازوں ،تخمینوں،غالباً اور شاید پر چل رہی ہو ۔تو وہاں مسائل کا حل ڈھونڈنا نادانی کے سوا کچھ نہیں ہے ،افغان مہاجرین کے علاوہ کراچی میں بڑی تعداد میں موجود ہیں مگر انھیں رکھنے نہ رکھنے کا معا ملہ صرف بیانات تک محدود ہے ،یا غریب اور لاچار افغانیوں کے خلاف اپریشن کر لیے جاتے ہیں ،مگر جو مالدار افغانی ہیں وہ اپنے کاروبار جمائے بیٹھے ہیں ۔اور انہیں کسی نہ کسی کی آشیر آباد حاصل ہے۔

آج جو حکمران ان پناہ گزینوں کو امن کے لیے خطرہ قرار دے رہے ہیں ضیاالحق کے دور میں جوک در جوک ان کی آمد کو قومی مفاد کہہ رہے تھے ۔ ان پناہ گزینوں کی واپسی کا بہترین وقت افغان طالبان کا پر امن دور تھا ۔مگر اس وقت دارالسلام کے بڑے بڑے ٹھیکیداروں کے خاندان بھی پاکستان میں ہی مقیم تھے ،البتہ یہ ضرور ہوا پاکستانی مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء افغانستان منتقل ہوتے رہے مگر پناہ گزین نہیں ،اب آ پ جو مرضی بیان دیتے رہیں ریاست میں اتنی سکت ہی نہیں کے افغان مہاجرین کو کہیں بس بھائی بس بہت ہوگیا ۔

Comments are closed.