برطانیہ کا یورپی یونین سے اخراج

anbارشد نذیر

برطانیہ کے یورپی یونین میں رہنے یا اس سے اخراج کی سیاسی مہم چارمہینوں تک جاری رہنے کے بعد 23 جون 2016 کو اس فیصلے کے ساتھ

کہ برطانیہ اب یورپی یونین کا حصہ نہیں رہے گا ختم ہوگئی۔ اگرچہ یورپی یونین 2008 کے مالیاتی بحران کے بعد ہی ٹوٹ گئی تھی لیکن اس کو منصوعی طریقوں سے یکجا رکھنے کی کوشش کی گئی۔ برطانیہ کی علیحدگی اس کے مسلسل زوال کا پتا دے رہی ہے۔

یورپی یونین کے قیام کے مقاصد اور اس کے تاریخی پس منظر پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ اس کے قیام کے دو بنیادی مقاصد تھے۔ ایک مقصد دینا میں جنگ بندی کا تھا اور دوسرا مقصد سیاسی اور معاشی استحکام کا حصول تھا۔

نو مئی 1950 میں فرانسیسی وزیرِ خارجہ رابرٹ سوشیمین نے فرانس اور جرمنی کے درمیان مزید جنگ سے بچنے کے لئے یورپین کول اینڈ سٹیل کمیونٹی کا تصور پیش کیا۔ اس تصورکے پیشِ نظرایک طرف یہ نظریہ کارفرما تھا کہ جنگ کو ناممکن بنا دیا جائے اور دوسری طرف ریاستی مفادات سے بالاتر ایک سپر نیشنل ازم کے قیام کا تصورتھا۔ تاہم کمیونٹی کا ایک بڑا اور براہِ راست مقصد سٹیل اور کول کی پیداوار اور خام مال کے عدم توازن سے پیدا ہونے والی معیشت صورتحال کو قابو میں رکھنا تھا۔

اس مقصد کے لئے فرانس اور جرمنی کی سٹیل اور کول کی پیداوار کو ایک مشترکہ اتھارٹی کے زیرِ کنٹرول لانے کی تجویز دی گئی۔ ایک سال کے بعد1951میں پیرس کا معاہدہ جس پر بیلجیم، فرانس، مغربی جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈ اورلیگزمبرگ کی اس بین الاقوامی تنظیم یورپین کول اینڈ سٹیل کمیونٹی نے دستخط کئے جو درحقیقت یورپی یونین کے قیام کا پہلا قدم ثابت ہوا۔

چھ ریاستوں پر مشتمل اس پہلی سپراانٹر نیشنل کمیونٹی نے سرحدی حد بندیوں کا خاتمہ، مشترکہ بنک اور مشترکہ کرنسی کا قیام اوریورپی ریاستوں کوسیاسی طور پر یکجا کرنے کے خواب کا اپنا ارتقائی سفرمکمل کیا اوراب یہ 28 یورپی ریاستیں کا ایک سیاسی اورمعاشی اتحاد ہے۔

نظریاتی طور پراس یونین کو ایک بڑا قدم قرار دیا گیا۔ لیکن عملاً ریاستوں کے درمیان پائی جانے والی معاشی ناہمواری کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکی۔ البتہ بورژوا معیشت دان اور لبرل سیاست دان اس اقدام کو انسانی فلاح کی طرف ایک بڑا قدم قرار دیتے رہے۔ 

سنہ1992میں اکنامک اینڈ مانیٹری یونین برائے یورپی یونین کا قیام ہوا۔ جس میں یہ طے پایا کہ تمام یورپی یونین کے ممالک تین مرحلوں میں یورو زون میں شامل ہوں گے جس کے بعد تمام ممالک کے مالیاتی امور کا کنٹرول ایک مشترکہ بنک جس کا نام یورپی یونین مرکزی بنک ہوگا کے سپرد ہوگا۔ اس فیصلے میں معیشت کے بجائے سیاسی پہلوؤں پر زیادہ نظر رکھی گئی۔ فرانس، جرمنی اور ڈنمارک جیسی ریاستوں کے اس فیصلے پر اپنے اپنے تحفظات بھی تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس سے افراطِ زر اور بے روزگاری ختم نہیں ہوگی۔

تاہم یورپی یونین مرکزی بنک کا قیام عمل میں آگیا اور اس کے قیام کے بعد یورپ کے بنکوں کے پاس بھی سرمایہ کاری کے مروجہ طریقوں کےعلاوہ کوئی دیگر راستہ نہ تھا۔ لہٰذا یورپ کے بیشتر بنکوں نے بھی امریکہ کی گروی رکھ کرصارفین کو اشیا فراہم کرنے والی سرمایہ کاری پرہی اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ جب امریکہ کا چوتھا بڑا بنک لہیمنٹ برادرزاس طرز کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ناکام ہوا تو بنکوں میں ایک خوف کی فضا پیدا ہوگئی کہ اب تو بینک ڈیفالٹ ہو جائیں گے۔ بینکوں نے آپسی قرضوں کو روک لیا۔

دیکھتے ہی دیکھتے یہ خوف یورپی بینکوں میں بھی سرایت کر گیا۔ یورپی بنک بحران کی زد میں آنا شروع ہو گئے۔ بنکوں کو بچانے کے لئے جرمنی، فرانس، بیلجیم، آئرلینڈ، ڈنمارک،نیدرلینڈ کی حکومتوں کو سامنے آنا پڑا۔ جرمنی کے سرمایہ سے تمام یورپ کے سرمایہ داروں کو مالی اعانت یا سبسڈی تو فراہم کی جاتی رہی لیکن یہ اقدام قطعاً تسلی بخش حل نہ تھا۔ پھران حکومتوں کے پاس بیل آوٹ فراہم کئے جانے کے فارمولے کے علاوہ کوئی دیگر راستہ ہی نہیں تھا۔ بیل آوٹ کی اس پالیسی کے براہِ راست اثرات غریب عوام اور محنت کشوں پر پڑے۔ کمزورمعیشتوں والی ریاستوں کے پاس اس بوجھ کو سہارنے کی سکت ہی نہ رہی۔

نتیجتاً بنکوں کے اس بحران نے ریاستوں کے بحران کی شکل اختیارکرنا شروع کر دی۔ یونان کی کمزور ترین معیشت اس ساری صورتحال کی بدترین مثال ثابت ہوئی۔ معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لئے کٹوتیوں کا تمام تر بوجھ یورپ کے غریبوں اور محنت کشوں پر ڈالا جاتا رہا۔ اس طرح بحران میں انسانیت اور انسانی حقوق کی پاسدار ریاستوں نے سرمایہ داروں کے پیداکردہ بحران کا تمام ترملبہ غریبوں اور محنت کشوں پر ڈال دیا۔ غریبوں اور امیروں کے درمیان خلیج بھی مسلسل بڑھتی چلی گئی۔پھر برطانیہ کے یورپی یونین کے مرکزی بینک میں شمولیت کی کہانی بھی بہت دلچسپ ہے۔

سنہ1999 میں یورپین یونین مرکزی بنک کے قیام اورایک مشترکہ کرنسی کا اجرا کے بعد برطانیہ نے اپنی پاؤنڈز کی کرنسی کو برقرار رکھا۔ یورپی یونین میں شمولیت بھی اختیار کی لیکن یورو زون میں شامل نہیں ہوا۔ برطانیہ شنیگن معاہدے کا حصہ بھی نہ بنا یعنی بارڈر کنٹرول بھی اپنے ہاتھ میں رکھا اورخارجہ پالیسی کے حوالے سے بھی اُس نے اپنی پالیسی یورپی یونین سے الگ تھلگ ہی رکھی۔ مشرقِ وسطیٰ کے حوالے سے برطانیہ کی خارجہ پالیسی نے دیگر یورپی ریاستوں میں تحفظات نے جنم لیا۔ ایسے سیاسی رویے کی روشنی میں بھلا یورپی یونین کے سپرا انٹرنیشنل فلسفے کی تکمیل کہاں ممکن تھی۔

آخر مسلسل پکنے والے ان تضادات کوایک نہ ایک دن پھٹنا تو تھا۔ سو بالآخر یہ تضادات برطانیہ کی علیحدگی کی صورت میں سامنےآئے۔اب جبکہ سنگل مارکیٹ اورسرمایہ دارانہ استحصال پر مبنی گلوبل اکانومی کا تصورناکام ہوا، توبرطانیہ کی منڈی پربھی اس کا دباؤ بڑھتا ہوا نظرآرہا ہے۔ برطانیہ کے کل تجارتی حجم میں سے نصف کا انحصار یورپی یونین پر ہے۔

پہلے بوژوا معیشت دانوں کا یہ خیال تھا کہ مڈل ایسٹ اور شام سے ہونے والی مائیگریشن سے تجارت پرمثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک تو سستی لیبرکی قوتِ خرید انتہائی محدود ہوتی ہے۔ دوسرااسلامی شدت پسندی اور دہشت گردی کے خوف کی وجہ سے یورپ میں منتقل ہونے والے ان مہاجرین کے بارے میں یورپی ریاستوں کے اندر بھی شدید اختلافِ رائے پایا جاتا تھا۔ جس کی وجہ سے ان مہاجرین کو یورپ میں حقیقی معنوں میں ایک آزاد شہری کی حیثیت ہی مل ہی نہ سکی۔

مہاجرین کی پورے یورپ میں آمد و رفت بھی محدود ہو کررہ گئی اور اس صورتحال کے تجارت پربھی مثبت کے بجائے منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو گئے۔ بورژوا معیشت دانوں اور لبرل سیاست دانوں کا یہ خیال کہ اس سے ان کی تجارت پر مثبت اثرات مرتب ہونگے مکمل طور پرغلط ثابت ہوا۔ اب انہوں نے اس مائیگریشن کے تجارت پر انتہائی گہرے اور منفی اثرات کی باتیں کرنا شروع کر دیں ہیں۔ بورژوا معیشت دانوں اور لبرل سیاست دانوں کے پاس مہاجرین کے اس اضافی بوجھ کو سہارنے کا کوئی معاشی ڈھانچہ نہیں تھا تو انہوں نے اس کو نسلی اور مذہبی رنگ دینا شروع کر دیا۔

لیکن اس حکمتِ عملی سے معیشت نے کب سدھرنا تھا۔ نہ روزگار یورپی ریاستوں کے مائیگریشن کرنے والے افراد کو ملا اور نہ ہی مشرقِ وسطیٰ سے مہاجرت کرنے والوں کو۔ منطقی نتیجہ ملازمتیں ختم ہونے کی صورت میں برآمد ہوا۔ کٹوتیوں پر کٹوتیاں کی گئیں۔ پبلک سیکٹر فنڈنگز پر بھی کٹس لگے۔ سرمایہ داروں اور مزدوروں کے درمیان بداعتمادی کی فضا نے جنم لینا شروع کر دیا۔ مزدوروں کے احتجاجات بڑھتے چلے گئے۔ تعلیم، صحت کے علاوہ دیگر کئی ایک شعبوں میں تمام یورپی ریاستوں میں ہڑتالوں کی کال دی جانے لگی۔

حکومت اور سرمایہ دارانہ اشرافیہ نے بھی مزدوروں کی ان سرگرمیوں کو روکنے کے لئے شدید ردِعمل ظاہر کیا۔ مزدوروں کی سیاسی سرگرمیوں کو روکا جانے لگا۔ یونینزکے قائدین بھی کبھی اعتماد اور کبھی بداعتمادی کے ساتھ اپنے غصے کا اظہار احتجاجوں کی صورت میں کرتے رہے۔ آخر اس ریفرنڈم میں لوگوں نےحکومت کی پالیسوں کے خلاف اپنے غصے کا برملا اظہار کردیا۔

لیبر پارٹی کے جیرمی کوربن جو کے بائیں بازو کے لیڈر ہیں پریورپین یونین میں رہنے کا دباؤ تھا۔ لیکن اُنہوں نے یورپی یونین کے اندر رہنےکے لئے کوئی زیادہ موثر کن تحریک نہیں چلائی۔ اس لئے لیبر پارٹی کے اندرجیرمی کوربن کے خلاف محنت کشوں کا غصہ بڑھ رہا ہے اور اُس پر یہ دباؤ بھی بڑھ رہا ہے کہ وہ اپنا عہدہ چھوڑ دے۔

مائیگریشن کا مسئلہ برطانیہ کے لئے دوہرے طور پر گھمبیر ہے۔ ایک طرف مشرقِ وسطیٰ اور بالخصوص شام سے یورپی یونین کی ریاستوں میں منتقل ہونے والے مہاجروں کا مسئلہ ہے۔ اس مسئلے کے حوالے سے یورپی یونین کی بیشتر ریاستیں برطانیہ کی خارجہ پالیسی کو موردِ الزام ٹھہراتی ہیں۔ برطانیہ کی اس پالیسی نے یورپی رکن ریاستوں اور برطانیہ کے درمیان سیاسی فاصلے بڑھا دیئے۔

دوسری طرف شمالی آئرلینڈ اور ری پبلک آف آئرلینڈ سے برطانیہ کی طرف منتقل ہونے والے یورپیوں کا مسئلہ بھی ہے۔ شمالی آئرلینڈ برطانیہ کا حصہ ہے جبکہ ری پبلک آف آئرلینڈ یورپی یونین کا حصہ ہے۔ ان کے درمیان 1920 سے ہی عیسائی مذہبی فرقہ پرستی اور سماجی و ثقافتی حوالوں سےکشیدگی پائی جاتی ہے جو یورپی یونین کے قیام کے بعد وقتی طورپرختم ہوگئی تھی، لیکن برطانیہ کے یونین سے اخراج کے بعد اس کشیدگی کے ابھرنے کے خدشات دوبارہ پیدا ہوتے نظرآرہے ہیں۔

ری پبلک آف آئرلینڈ کا 310 میل کا بارڈر جس کے راستے سے فرانس، جرمنی ، سپین، پرتگال اور دیگر یورپی یونین کی ممبر ریاستیں پہلے ری پبلک آف آئرلینڈ میں داخل ہوتی ہیں اور پھر شمالی آئرلینڈ کے راستے سے برطانیہ میں داخل ہو جاتی ہیں۔ برطانیہ کویونین سے اخراج کے بعد اپنے بارڈ قوانین کو سخت کرنا ہوگا۔ لیکن اس قسم کی سخت قانون سازی کے لئےلازماً ہے کہ وہ ری پبلک آف آئرلینڈ پر موجود بارڈ پر چیک اینڈ بیلنس کو سخت رکھے۔ ایسا کرنے کا سیدھا سادھا مطلب دونوں آئرلینڈزمیں سماجی اور سیاسی طورپر صورتحال مزید پیچیدہ کرنا ہے۔

آئندہ سالوں میں یہ مسائل بڑھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب برطانیہ پہلے کی طرح کا گریٹ برٹن نہیں رہے گا۔ برطانیہ کے اس بحران کے ساتھ ساتھ یورپی یونین کا اپنا بھی اب وجود برقرار رہتا نظر نہیں آتا۔ یوں لگتا ہے کہ آنے والے سالوں میں دیگرکئی ایک ریاستیں یورپی یونین سے باہر نکل جائیں گی۔

اوپر بیان کردہ تمام تر معاشی صورتحال پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوئی ہے اور کسی صورت بھی کم ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ہرطرف معاشی بدحال جس کے اثرات سماجی اور سیاسی بے چینیوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں سامنے نظر آرہے ہیں۔

برطانیہ کےعلاوہ یہ بے چینی فرانس میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔ تیس جون کو فرانس میں لاکھوں احتجاجی سڑکوں پر نکل آئے۔ وہ حکومت کی مزدور کش پالیسیوں، عالمی سرمایہ داری، غریب اور امیر کے درمیان بڑھتی ہوئی اس خلیج کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ محنت کشوں کا کہنا تھا کہ حکومت صرف حکمران طبقوں اور سرمایہ داروں کے مفادات کا تحفظ کر رہی ہے۔

جرمنی، اٹلی اور یونان بھی اسی بے چینی اور معاشی دباؤ کا شکار ہیں۔ کسی کی معیشت بھی سنبھلتی نظر نہیں آرہی۔ جرمنی میں بے روزگاری کی شرح 20۔14٪ بتائی جاتی ہے جو کہ 1950کے بعد سے اب تک کی سب سے کم ترین شرح ہے۔ 10۔13٪ شرحِ بے روزگاری اٹلی میں بتائی جاتی ہے اور یونان میں 7 2۔15٪ بیان کی جاتی ہے۔ اس میں بھی 16 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان بے روزگاروں کو شامل نہیں کیا جاتا۔

یورپی یونین کے سرکاری شماریاتی آفس یوروسٹیٹ جو کہ ہر سہ ماہی کے تیس دن بعد جی ڈی پی کی رپورٹ شائع کرتا ہے نے 2016 کی پہلی سہ ماہی کا پچھلی سہ ماہی سے موازانہ کرتے ہوئے تمام یورپ میں جی ڈی پی کی بڑھوتری کو صرف ٪5۔0 ظاہرکیا ہے۔ موسمیاتی بے روزگاری جس کی شرح مارچ 2015 میں ٪2۔11تھی فروری 2016 میں ٪4۔10 پہنچی اور پھر مارچ 2016 میں ٪2۔10 پر پہنچ گئی۔ نوبل انعام یافتہ ماہرِ معیشت سٹگلٹز یکم مئی 2016 کے نیویارک ٹائم میں یورپ کی صورتحال پرتبصرہ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ سارا عشرہ ہی تباہ کن ہے جو واضح طور پر یورو اور یوروزون کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس معاشی ڈھانچے کے ساتھ سپراانٹرنیشنل کے تصور کو قائم رکھنا کسی دیوانے کا خواب ہی ہوسکتا ہے اس کاحقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ سواسی پسِ منظر میں یورپ جو ایک نئی اور مشترکہ ثقافت کا خواب لے کر اٹھا تھا، اب بحرانوں کی زد میں آتے ہی اپنی اپنی علاقائی معیشتوں کو بچانے کے لئے نسل پرستی کا شکار ہونے لگا ہے۔ ہر ریاست کو اپنی انفرادی معیشت کو سنبھالا دینے کی فکر لاحق ہوگئی ہے۔ ان ریاستوں کی سرمایہ داری اپنے ہی تضادات کا شکار ہونے لگی ہے۔

مائیگریشن کو انسانی بنیادوں اور انسانی حقوق کے تناظر میں دیکھے جانے کی بجائے مستقل معاشی بوجھ کے طور پر دیکھا جانے لگا ہے۔ ماضی کے سرمایہ داری کے تمام حاصلات اب اپنے نفی میں بدلتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ کیا انسانی حقوق اور کیا نسلی امتیازات سے بالادستی کے ادرش۔ تمام کے تمام ادرش چکنا چور ہوتے نظرآرہے ہیں۔ کسی بھی لبرل، نیولبرل، بوژوا معیشت دان یا سیاستدان کے پاس کوئی معاشی، سیاسی اور سماجی حل موجود نہیں تھا۔

اس ریفرنڈم کے مضمرات اور اثرات دنیا کے دیگر بیشتر ممالک میں بھی محسوس کئے جائیں گے۔ ابھی سے دیگر مغربی ممالک نے اپنے اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔

یورپی ممالک کے علاوہ 26 جون کے بی بی سی اردو نیوز میں چین کے وزیرِ خزانہ لوجیوی نے بھی برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج کے فیصلے پر شائع ہونے والے اپنے ایک بیان میں اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ اس کے مضمرات آئندہ پانچ سے دس سال میں ظاہر ہوں گے۔ چین کے مرکزی بینک کی مانیٹری پالیسی کی کمیٹی کے رکن ہوانگ ژپنگ نے کہا کہ برطانیہ کا یورپی یونین سے نکلناعالمگیریت کے اختتام کا نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر ایسا ہوا تو یہ چین اور دنیا کے مفادات کے خلاف ہوگا۔ گزشتہ دس سال میں چین برطانیہ میں تقریباً تیس کھرب ڈالرکی سرمایہ کاری کر چکا ہے۔ اتنی بڑی سرمایہ کاری کے بعد ایسے تحفظات کا اظہار کوئی زیادہ غیر فطری یا بعید از قیاس بھی نہیں ہے۔

کینری وارف لندن کا مالیاتی سرگرمیوں کا مرکز ہے یہاں سے ہی یورپ کے تمام بڑے بینک اور مالیاتی ادارے اپنا کاروبار کرتے رہے ہیں۔ برطانیہ پر چونکہ یورپ کے دیگر ممالک کے روزگار کے تحفظ کے سخت قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا تھا اس لئے امریکی اور سوئس بینک یورپ کواپنی تمام تر مالیاتی خدمات برطانیہ کے ذریعے سے پہنچاتے رہے ہیں تاکہ وہ یورپ کے ایمپلائمنٹ پروٹیکشن لاز سے بچ سکیں۔ مشہورِ زمانہ امریکی انویسٹمنٹ بینک گولڈمن سیکسیا جے پی مورگنجرمن یا فرانسیسی بھی تحفظِ روزگار کے سخت قوانین سے بچنے کے لئے ایسا کرتے رہے ہیں۔ برطانیہ کے اخراج کے بعد امریکہ کے لئے یورپ میں اپنی مالیاتی خدمات اس طریقے سے پیش کرنے کا عمل مشکل ہو جائے گا۔

امریکہ کی یورپی یونین میں کی گئی انوسٹمنٹ پورے ایشیا میں کی جانے والی انوسٹمنٹ سے تین گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح یورپین یونین کی امریکہ میں کی گئی انوسٹمنٹ کا حجم انڈیا اور چائنا میں کی گئی انوسٹمنٹ سے بھی آٹھ گنا زیادہ ہے ۔ یہی ٹرانس ایٹلانٹک تجارتی تعلق جو کمپنوں کے درمیان موجود ہے عالمی معیشت کے خدوخال متعین کرتا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ کی کل مجموعی خام پیداوار پوری دنیا کی مجموعی خام پیداوار کے نصف کے برابر ہے اورتجارتی ترسیلات کے حوالے سے تیسرے نمبر پر ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ یورپی یونین میں آنے والے معاشی اور سیاسی بحرانوں کے اثرات امریکہ پر نہ پڑیں۔ جب اس کے منفی اثرات امریکہ پر پڑیں گے تو پھر چائنا کے گلوبل اکانومی کے ناکامی ہونے والے خدشات اپنی عملی شکل میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے۔

Comments are closed.