علی احمد جان
وطن کی محبت اور ہم وطنوں کی الفت میں گاۓ جانے والے گیت جب بیرونی جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت کی آواز بن جاتے ہیں تو قومی حقوق کی جدوجہد میں متشکل ہوتے ہیں جس کو ہم قوم پرستی یاقومی حقوق کی جدوجہد کی سیاست کہتے ہیں۔ گزشتہ کئی صدیوں میں ابھرنے والی جدید قومی ریاستوں کے تصور کے ساتھ ہی سرحدی تنازعات نے جنم لیا جن کی وجہ سے جنگوں کی ایک لہر دَر آئی جس سے یورپ اور ایشیا سب سے زیادہ متاثر ہوۓ۔
قومی حمیت، نسلی غیرت ،معاشی مفادات اور کمزوروں پر تسلط کے لئے لڑی گئیں دو بڑی جنگیں انسانی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہیں۔ نوےّ لاکھ فوجیوں اور ستر لاکھ عام شہریوں کو لقمہٗ اجل بنانے والی پہلی جنگ عظیم اور کروڑوں انسانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے والی دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام عالم نے اقوام متحدہ کے قیام پر اتفاق تو کیا لیکن مختلف اقوام اور نسلی گروہوں کے درمیان سرد مہری ختم نہ ہو پائی ۔
اس پر مستزاد یہ کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد نظریاتی بنیادوں پر دنیا کی دو حصوں میں تقسیم نے عالمی امن کو مزید عدم تحفط سے دوچار کئے رکھا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برطانوی استعمار سے آزادی پانے والے ہندوستان میں بسنے والی مختلف لسانی اور نسلی گروہوں میں بھی قوم پرستی کے اثرات نمایاں رہے۔ قوم پرستی کی مذہبی بنیاد پر کی گئی تشریح نے برصغیر کو ہندوستان اور پاکستان میں تقسیم کردیا ۔
مذہب کے نام پر وجود میں آنے والے ملک میں صرف دو دہائیوں میں ہی قومیت نے پھر سر اٹھا یا اور لسانی بنیادوں پر ایک دفعہ پھر تقسیم سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک طرف موجودہ پاکستان میں قومیت اسی شدت سےموجود ہے جس کے جواب میں مختلف مذہبی، سیاسی اور سماجی توضیحات سامنے آتی رہی ہیں جبکہ دوسری طرف قوم پرست سیاست کے مجوزہ سیاسی و سماجی نظریات کو بھی عوم الناس کی خاص پذیرائی حاصل نہ ہو پائی جس کی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
جب تک سابقہ سوویت یونین کی حمایت کی بنیاد طبقاتی مساوات کی تحاریک رہیں، قوم پرستوں نے بھی خود کو اس کے ساتھ مربوط کئے رکھا ۔ سوویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی ہمارے ہاں قوم پرست سیاست سے طبقاتی مساوات کا پہلو نکل گیا اور قوم پرستی صرف قومی سوال تک محدود ہوگئی۔
بعض مفکرین بالخصوص جنوبی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے دانشوروں کی غالب اکثریت کے نزدیک پاکستان میں رائج قبائلی اور جاگیردارانہ نظام خود ہی سماجی نا انصافیوں اور جبر کا ذمہ دار ہے جس میں سماجی انصاف اور برابری کے کسی ہمہ جہت پروگرام کے بغیرصرف لسانی یا نسلی خود مختاری کے ذریعے سماج کے پسے ہوۓ طبقات کی انقلابات سے وابستہ امیدیں پوری نہیں ہوسکتیں ۔
قوم پرستی کی سیاست میں فرسودہ قبائلی رواج کو تقویت دینے کے لئے ثقافتی ورثہ اور قومی جاگیردار جیسی اصطلاحات قوم پرستی کے اندر چھپے سٹیٹس کو کی خواہش کو عیاں کرتی ہیں جبکہ محرومی کی چکی میں پسے لوگ صدیوں سے رائج ان تمام رواجوں اور دساتیر سے گلو خلاصی چاہتے ہیں جن کی آڑ میں یہاں انسان خدا بن جاتے ہیں ۔
سماجی ناہمواری کے خاتمے کے بغیر مذہب کی بالادستی اور قومی حمیت کے نام پر لائی گئی تبدیلی کے ثمرات کا مشاہدہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں کیا جاسکتاہے جہاں شخصی حکمرانی اب ایک دیرینہ خاندانی تسلط میں بدل چکی ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی آزادی کا تصور ہی محال ہے۔۔
جمہوری ادوار میں پاکستان کی قوم پرست کہلانے والی جماعتوں کو بھی اقتدار میں حصہ ملا ۔ اگر ان کے دور اقتدار کو دیکھا جاۓ تو انھوں نے ان حکمران طبقات سے بہتر کارکردگی نہیں دکھائی جن کو وہ ہمیشہ سے ظالم یا ظالموں کے ایجنٹ کہتے رہے ۔ بد دیانتی تو پاکستانی سیاست میں اب کوئی جرم رہاہی نہیں کہ جس کے پیمانے پر سیاستدانوں کو پرکھا جاسکے ۔ ہمارے ہاں اب سب سے دیانتدار سیاست دان وہ ہے جو لوگوں سے براہ راست پیسے نہیں اینٹھتا، بلکہ صرف سرکاری خزانے پر انحصار کرتاہے۔
بعض نقادوں کے نزدیک قوم پرست براہ راست عوام سے پیسہ بٹورکر ایمانداری کےاس پست ترین معیار پر بھی پورا نہ اتر سکے۔ عوام کے نزدیک اب قوم پرستی بھی اقتدار اور پیسہ کے حصول کا مجرب نسخہ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ قوم پرست اپنے کسی شاندار ماضی کی کہانیاں اوراغیار کے ظلم کی داستانیں سناکر اقتدار میں آجاتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو روایت ہے۔ تو ایسے میں قوم پرستی کی سیاست اور ی اس کی حمایت بھی سراب ثابت ہوئی۔
قوم پرستوں نے اپنی سیاسی نظریے کو ہمیشہ ایک عقیدہ کے طور پر پیش کیا ہے اور اس سے روگردانی کو گناہ گردانا ہے۔ ان کے نزدیک صرف وہی اس قوم یا قومیت کے حقیقی نمائندے ہیں جو ان کی باتوں کو برحق سمجھتے ہوۓ ان پر من و عن عمل پیرا ہوتے ہیں۔ کسی سیاسی پروگرام کے بغیر جذباتیت پر مبنی قوم پرستی کی سیاست میں بھی رواداری کا اتنا ہی فقدان ہے جتنا تنگ نظر مذہبی فرقہ واریت کی سیاست میں ہوا کرتا ہے۔
نظریاتی قوم پرستی کی قومی جمہوری انقلابی سیاست کے بغیر وجود میں آنے والی قوم پرست جماعتوں میں تو مذہبی فرقہ ورانہ تصورات کی بھی بہتات ہے۔ ایسی قوم پرست جماعتوں نے معاشرے میں پھیلتی مذہبی عدم رواداری کی حوصلہ شکنی سے بھی گریز اس لئے کیا کہ ان کی قوم پرستی کی سیاست کہیں مذہبی عناصر کی حمایت سے محروم نہ ہوجائے۔ بجاۓ مذہبی تفرقہ بازی کے خلاف قومی یکجہتی کو ایک متبادل کے طور پر پیش کرنے کے بعض قوم پرستوں نے مذہبی انتہا پسندوں کے ساتھ اتحاد بھی کیا اور قوم پرست کبھی کبھار فرقہ ورانہ جماعتوں کےہم زبان اور ان کے ہم قدم و ہم نشین بھی نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں قوم پرستی کی سیاست انیسویں اور بیسویں صدی کی رومانوی وطن پرستی سے آگے نہ بڑھ سکی جس میں اپنے وطن کی خوبصورتی کے گیت گاۓ جاتے تھے اور اپنے شاندار ماضی کے قصے بیان کئے جاتے تھے۔ نوجوانوں کو وطن کے نام پر غیرت دلائی جاتی تھی تاکہ وہ اپنے دشمن کے خلاف صف آرا ہوں۔ قوم پرستی کی روایتی سیاست میں بھی لوگوں کو باور کرایا جاتا ہے ان سے بہتر کوئی قوم نہیں اور ان کے اجداد سے بہتر لوگ گزرے ہی نہیں۔ حال کی زبوں حالی تو بیان کی جاتی ہے لیکن مستقبل کا کوئی نقشہ پیش نہیں کیا جاتا۔ لوگوں کو صرف وطن کی آزادی کی امید پر رکھا جاتا ہے بعض جگہوں پر تو عام لوگوں کو آزادی کے حصول تک تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔
قوم پرست کہلانے والے سیاست دانوں کی نجی زندگیاں بھی تضادات سے خالی نہیں ۔ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلواتے ان راہنماؤں نے غریبوں کے بچوں سے بنیادی تعلیم کے حق کو وطن کی ا ٓزادی تک موخر کر رکھا ہے۔ ملک کے امرا ء اور حکمران طبقے سے اپنے تعلقات در پردہ استوار رکھے اور مراعات حاصل کرتے رہے ہیں۔ اپنے لوگوں کی مظلومیت کا پرچار صرف اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لئے ایک زینے کے طور پر کرتے رہے۔
اکیسویں صدی کی سیاست پچھلی صدی میں آزماۓ گئے نظریات سے زیادہ موجودہ دور کے معاشی، معاشرتی اور سماجی مسائل کے عملی حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ آج دنیا ایک عالمی گاؤں بن چکی ہے جہاں کے مکین نہ صرف ایک دوسرے کے حالات و واقعات سے باخبر رہتے ہیں بلکہ ان کی ایک دوسرے تک رسائی بھی پہلے کی نسبت زیادہ آسان ہے۔ اب ہجرت بہتر زندگی اور کفالت کے لئے بھی ہوتی ہے۔ یورپ، براعظم شمالی امریکہ اور آسٹریلیا میں پناہ لینے والے اپنے وطن میں بسنے والوں سے زیادہ خوشحال اور آسودہ ہیں۔ اگر لوگ قوم پرستی کے نام پر سیاست کرنے والوں کی باتوں پر زیادہ متوجہ نہیں ہوتے تو یہ قوم پرست سیاست کی بدلتے حقائق کے ساتھ بدلنے میں ہچکچاہٹ ہے نہ کہ لوگوں کی اپنے قومی مسائل پر سرد مہری کا نتیجہ۔
اشتراکیت کے سکڑ جانے کے بعد سرمایہ داری کی عالمگیریت اور اس کے ہولناک نتائج اور عقائد کی تنگ نظر تشریحات اور ان کے اثرات سے بچاؤ کے قوموں کے اپنے لائحہ عمل ہی کسی قوم کی قومی سیاست کا آئینہ دار ہوگا۔ نسلی، مذہبی اور لسانی تعصب پر مبنی سیاست کے برعکس ایک ہمہ گیر ، نسل انسانی کی بقاء پر مبنی عالمگیر حکمتِ عملی اور اس میں دیگر اقوام کی شمولیت ہی قوم پرستی کی سیاست کہلاۓ گی نہ کہ اقوام دیگر سے خود کو علیٰحدہ کردینے والی تنگ نظر نسل پرستی ۔
ہمارے قوم پرستوں کا المیہ یہ بھی ہے کہ وہ آج بھی تنہائی کو ہی قوم پرستی سمجھتے ہیں جبکہ یہ دور اشتراک اور شمولیت کا ہے۔ جب تک قوم پرستی اقوام عالم کے ساتھ مربوط نہیں ہوگی، نسل پرستی جاری رہے گی جس کو دنیا پہلے ہی مسترد کر چکی ہے۔