فری میوز ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں موجود موسیقی کی ایک تنظیم ہے۔ جو دنیا بھر میں موسیقی کی ترویج کیلئے کام کرنے کیلئے ان موسیقاروں کیلئے آواز اٹھاتے ہیں جو اپنے ممالک میں کٹھن حالات سے گزر رہے ہیں۔
بہت سال پہلے جب لال مسجد والوں نے پاکستانی سرود نواز اسد قزلباش (حال مقیم بلجئیم) کو اپنا “کنجرخانہ” بند کرنے کا کہا اور اس “نصیحت” پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اس کے بچے کو اغوا کرنے کی دھمکی دی تو یہ فری میوز ہی تھا جس نے اسد قزلباش کیلئے آواز اٹھائی۔
کے نام سے ایک ریکارڈ بھی ریلیز کر چکا ہے Listen to the banned فری میوز کچھ عرصہ پہلے دیا خان نامی ایک پاکستانی خاتون کے تعاون سے
جن میں ان موسیقاروں کی کاوشیں تھیں جو اپنے ممالک میں یا تو قید ہیں یا سنسر کئے جا رہے ہیں۔فری میوز اس کے علاوہ ہر سال نمایاں موسیقاروں کو ایوارڈ سے بھی نوازتا ہے۔ اس سلسلے میں 2017 کا ایوارڈ زہرہ نام کے افغانستانی طائفے کو دیا گیا ہے۔
طالبان کے زمانے میں موسیقی سیکھنا تو درکنار، بچیوں کو تعلیم، ملازمت اور سماجی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ اب افغانستان اپنے ز خموں کو صاف کر کے آگے بڑھ رہا ہے۔
ملک میں موسیقی اور خواتین کی ناگفتہ بہ حالت دیکھ کر ڈاکٹر احمد سرمست نے موسیقی میں ڈاکٹری کی ڈگری لی اور 2010 میں افغانستان میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کی بنیاد رکھی۔ جس کا بنیادی مقصد بچیوں کو موسیقی کے علم سے روشناس کروانا تھا۔ اس وقت سکول کے 200 طالبعلموں میں لڑکیوں کی تعداد 65 ہے جن کی عمریں 14 سے بیس سال کے درمیان ہیں۔
زہرہ گروپ میں صرف لڑکیوں پر مشتمل ہے ۔ یہ لڑکیاں افغانستان کے نیشنل انسٹیٹیوٹ آف میوزک کی طالبعلم ہیں۔ اور اپنے خاندان اور ملک کی پہلی لڑکیاں ہیں جو موسیقی سیکھ پائی ہیں۔ پچھلے کئی عشروں سے جنگ، خانہ جنگی اور دہشت گردی کا شکار اس ملک میں فنون لطیفہ کا جو نقصان ہوا ہے وہ کسی سے بھولا ہوا نہیں ہے۔
اس آرکسٹرا کی باگ ڈور مشرقی افغان صوبے کنڑ کی نگین خپلواک کے ہاتھوں میں ہے، جو اپنے وطن کی پہلی خاتون میوزک کنڈکٹر ہیں اور جو داووس سے وطن واپسی کی پرواز میں اپنی بیس ویں سالگرہ منائیں گی۔
اس آرکسٹرا کی زیادہ تر فنکارائیں یتیم ہیں یا پھر انتہائی غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں اور وہ اپنے قریبی عزیزوں اور دیگر حلقوں کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود اپنے اس شوق کو آگے بڑھانے کے لیے پُر عزم ہیں۔
نگین خپلواک کو بھی دیگر افغان نوعمر لڑکے لڑکیوں کی طرح بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤ تھا لیکن کم ہی لوگوں نے خاندان کے دباؤ اور دھمکیوں کے باوجود اپنے موسیقی کے شوق کے لیے اتنی سخت جنگ لڑی ہو گی، جتنی کہ نگین خپلواک نے لڑی ہے۔
نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک جائزے کے مطابق افغانستان میں طالبان کے دورِ حکومت میں آلاتِ موسیقی بجانا سرے سے ہی منع تھا اور آج بھی وہاں کے بہت سے قدامت پسند مسلمان موسیقی کی بہت سی اَقسام اور صورتوں کو سخت ناپسند کرتے ہیں۔
نگین نے موسیقی نے ابتدا میں چوری چھُپے موسیقی کے ابتدائی سبق لیے، بالآخر اُس نے اپنا یہ شوق اپنے والد پر ظاہر کر دیا۔ والد نے تو حوصلہ افزائی کی لیکن اُس کے باقی قدامت پسند پشتون خاندان کا ردعمل انتہائی حوصلہ شکن تھا:’’میرے والد سے قطعِ نظر خاندان کا ہر فرد میرے خلاف ہو گیا، وہ کہتے تھے کہ ایک پشتون لڑکی بھلا کیسے موسیقی بجا سکتی ہے اور وہ بھی ہمارے قبیلے میں، جہاں مردوں کو بھی ایسا کرنے کی اجازت نہیں ہے؟‘‘۔
آج کل نگین خپلواک کابل کے ایک یتیم خانے میں مقیم ہے اور اس پینتیس رکنی آرکسٹرا کی قیادت کر رہی ہے، جسے ‘زہرہ آرکسٹرا‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ آرکسٹرا افغانستان نیشنل انسٹیٹیوٹ فار میوزک میں مغربی اور افغان ہر دو طرح کی موسیقی بجانے میں مہارت رکھتا ہے۔
چند دن پہلے سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس کے خاتمے پر زہرہ گروپ نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ جہاں لڑکیوں نے مقامی موسیقاروں کے ساتھ مل کر آرکسٹرا پیش کیا۔ یہ لڑکیاں نہ صرف اپنے مقامی ساز جیسے ستار، طبلہ، رباب وغیرہ بجا رہی ہیں، بلکہ آپ کو افغانی لڑکیاں مغربی ساز جیسے وائلن، چیلو، بیس، اوبو اور پیانو بجاتی بھی نظر آئیں ۔
اور بات یہیں ختم ہی نہیں ہوتی، آرکسٹرا کو کنڈکٹ بھی افغانی لڑکی کر رہی ہے۔ ایک اہم بات ان لڑکیوں کا لباس ہے۔ سب لڑکیوں نے اپنا مقامی لباس پہنا ہوا ہے۔ سر پر حجاب نہیں بلکہ دوپٹہ نظر آ رہا ہے۔
DW/News desk
♦