گزشتہ ہفتے باچا خان کی برسی تھی۔اس برسی کے موقع پر مجھے ملک سے باہر اپناپہلا سفر یاد آیا۔ یہ سفر پشاور سے جلال آباد تک تھا۔ یہ سفر میں نے اس عظیم انسان کی میت کے ساتھ کیا تھا۔اس سے پہلے میں نے باچا خان کے بارے میں بہت کچھ پڑھ اور سن رکھا تھا۔میں اس کی عظمت اور اس کی عوامی مقبولیت کا قائل تھا۔مگر اس سفر کے دوران جو کچھ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ حیرت انگیز تھا۔
میں نے پاک افغان بارڈر کے دونوں طرف ہزاروں پشتونوں کو ڈھاڑیں مار مار کر روتے دیکھا۔چاروں طرف عوام کا ایک سمندر تھا جو اپنے اس ہر دل عزیز رہنما کی جدائی پر غمزدہ تھا۔ جلال آباد سے واپسی پر میں کئی دنوں تک حیرت و افسوس کے ساتھ یہ سوچتا رہا کہ پاکستان کی حکومتوں اور ذرائع ابلاغ نے اس شخص کے ساتھ کس قدر نا انصافی کی۔باچا خان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا وہ کس طور اس کا حق دار نہ تھا۔
اس کے بر عکس اگر اسے پاکستان میں ایک قومی ہیرو یا عظیم ترین تاریخی شخصیت بھی قرار دیا جاتا تو بھی اس کا حق ادا نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ باچا خان کی شخصیت کسی ایک ریاست اور ملک سے کئی بڑی اور قدآور تھی۔اسکی ایک چھوٹی سی جھلک ان کی موت پر دکھائی دی جب بیک وقت افغانستان پاکستان اور بھارت، تینوں ملکوں کے پرچم سرنگوں تھے۔افغانستان اور بھارت نے ان کی زندگی میں ہی ان کی عظمتوں کا اعتراف کیا۔بھارت نے ان کو اپنے اعلیٰ ترین سرکار اعزازوں سے نوازا۔
مگر اپنے ملک میں باچا خان تاریخ کی عظیم ترین نا انصافیوں کا شکار ہوئے۔ہمارے بونے خوف زدہ اور نفسیاتی طور پر غیر محفوظ حکمران باچا خان کی شخصیت اور ان کے سیاسی اور سماجی قد کاٹھ سے خوفزدہ تھے۔ وہ اپنے ان سیاہ کارناموں سے بھی خوف زدہ تھے جو انہوں نے قیام پاکستان کے فواًا بعد انجام دینے شروع کر دئیے تھے۔اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چونکہ ان کی ساری سیاست جھوٹ اور جعلسازی پر مبنی تھی اس لیے وہ ہر سچے ادمی اور سچے رہنما سے ڈرتے تھے۔
حکمرانوں کے اس ڈر اور خوف کی وجہ سے باچا خان کو اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوں اور جلا وطنی میں گزارنا پڑا۔اس مرد حر کو جو تکالیف انگریزوں کے خلاف آزادی کی جہدو جہد کی پاداش میں اٹھانی پڑی اس سے کہیں زیادہ آزادی کے بعد اٹھائیں۔یہ حکمرانوں کی احساس کمتری اور احساس جرم ہی تھا جس کی وجہ سے پاکستان بنتے ہی ڈاکٹر خان صاحب کی منتخب حکومت کو ختم کر دیا گیا۔اور ایک ایسے شخص کو صوبے کی حکمرانی سونپی گئی جس کا پختونوں او پختون خواہ سے کوئی تعلق نہ تھا۔
اس کے بعد باچا خان اور خدائی خدمت گار تحریک کے خلاف لاٹھیوں ، گولیوں اور قیدو بند کا ایک سلسلہ شروع کیا گیا۔ یہ سلسلہ مختلف شکلوں میں باچا خان کی موت تک جار ی رہا۔باچا خان کے خلاف سرکار ی سطح پر اس کھلی جنگ کا جواز یہ پیش کیا گیا کہ تقسیم ہندو ستان کے سوال پر باچا خان کی یہ رائے تھی کہ مذہبی بنیادوں پر ملک تقسیم کرنے سے ہندوستان کے مسلمان تقسیم ہو جائیں گے۔ یہ صرف باچا خان کی ہی رائے نہیں تھی بلکہ اس وقت بر صغیر کے کئی چوٹی کے علمائے کرام جن میں مولانا حسین احمد مدنی سے لیکر مولانا عطا اللہ شاہ بخار ی تک اور مولانا عبیداللہ سندھی سے لیکر مولانا مفتی محمود تک شامل تھے۔
قیام پاکستان کے بعد علمائے کرام کے ماضی کی آراء اور قائد اعظم اور پاکستان کے خلاف ان کے فتووں کو نظر انداز کر دیا گیا لیکن باچا خان کی رائے کو نہیں حالانکہ انہوں نے پہلی قانون ساز اسمبلی میں پاکستان کو تسلیم کرنے اور اس کے اندر امن و انصاف کے لیے جہدوجہد کا علان کیا۔ اس کے باوجود ان کی سچائی اور مقبولیت سے خوفزدہ حکمرانوں نے میڈیا کو باچا خان کو سنسر کرنے کا حکم دیا۔اس کے برعکس ریڈیو پاکستان پر مولانا موددی کے خصوصی لیکچرز کا اہتمام کیا گیا۔
یہ محض کوئی اتفاق نہیں تھا۔ بلکہ یہ حکمرانوں کے ان ارادوں اور پالیسی کا اظہار تھا کہ وہ اس نو ازاد ملک کو کس سمت میں لے جانا چاہتے ہیں۔اور مستقبل میں یہاں کس قسم کا نظام دیکھنا چاہتے ہیں ؟۔ظاہر ہے باچا خان کے ساتھ ان کا کوئی مذہبی اختلاف تو تھا نہیں۔ باچا خان ایک گہرے روحانی اور مذہبی شخص تھے۔وہ ایک عملی مسلمان تھے جو نماز روزہ، حج سمیت اسلام کے تمام ارکین کے پابند تھے۔حکمرانوں کو خوف تھا صرف باچا خان کے سیاسی نظریات سے۔وہ پاکستان کو تھیوکریٹک سٹیٹ بنانے اور مذہب کو سیاست میں لانے کے خلاف تھے۔وہ سماجی و معاشی انصاف اور صوبائی خود مختاری کے قائل تھے۔
باچا خان کے بارے میں ریاست اور میڈیا کا یہ متعصبانہ رویہ ہنوز جار ی ہے۔حال ہی میں کرسمس کے موقع پر پوپ نے دنیا کی تین عظیم شخصیات کو خراج تحسین پیش کیا۔ان میں نیلسن مینڈیلا، مہاتما گاندھی کے بعد باچا خان شامل تھے۔ یہ ایک بڑی خبر تھی مگر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اسے مجموعی طور پر نظر انداز کیا۔ پاکستان میں گزشتہ ستر سالوں میں سرکاری سرپرستی میں ایک بند اور متعصب ذہانت پیدا کی گئی ہے۔ آج ہمارے سماج اور میڈیا میں اس ذہانت کا کھلا اظہار چاروں طرف دکھائی دے رہا ہے۔اور اتنے برسوں سے جو کچھ بویا گیا تھا اج کاٹا جا رہا ہے۔
یہ عظیم فصل ٹی وی اینکروں ک شکل میں چار سو موجود ہے اور اپنی موجود گی کا چیخ چیخ کر اعلان کر رہی ہے۔
♠
One Comment