مراکش کے مقامی میڈیا کے مطابق ملک بھر کی فیکٹریوں کو پورے چہرے کو ڈھانپنے والے برقعے کی تیاری بند کرنے کے جبکہ دکانوں کو اس طرح کے برقعے کی فروخت بند کر دینے کے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔
مراکش کی وزارتِ داخلہ نے سلامتی کے خدشات کو اپنےان احکامات کی وجہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ ابھی تک مراکش کی حکومت کی جانب سے باقاعدہ طور پر ایسا کوئی اعلان جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم مقامی میڈیا کے اندازوں کے مطابق یہ نئے احکامات اگلے ہفتے سے ہی نافذ العمل ہو جائیں گے۔
نیوز ویب سائٹ ایل ای 360 نے وزارتِ داخلہ کے ایک ذریعے کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے:’’ہم نے سلطنت کے تمام شہروں اور قصبوں میں اس لباس کی امپورٹ، مینوفیکچرنگ اور مارکیٹنگ پر مکمل پابندی لگا دی ہے۔‘‘ اس ذریعے نے اس اقدام کے جواز کے طور پر سلامتی کی وجوہات کا ذکر کیا اور کہا کہ ’ڈاکوؤں نے بار بار اس لباس کا استعمال کرتے ہوئے اپنے جرائم کو چھُپانے کی کوشش کی ہے‘۔
واضح رہے کہ اعتدال پسند تصور کیے جانے والے مراکش میں زیادہ تر خواتین سر پر ایک ایسا اسکارف پہننے کو ترجیح دیتی ہیں، جو چہرے کو نہیں ڈھانپتا تاہم قدامت پسند حلقوں کی چند ایک خواتین بہرحال ایسا نقاب پہنتی ہیں، جس میں باقی سارا چہرہ چھُپا ہوتا ہے اور صرف آنکھیں ہی نظر آتی ہیں۔
’مراکو ورلڈ نیوز‘ کے مطابق مراکش کے متعدد سیاسی کارکنوں اور سیاستدانوں نے کہا ہے کہ اُنہیں اس حکومتی اقدام سے کوئی مسئلہ نہیں ہے تاہم انتہائی دائیں بازو کے سلفی حلقوں نے اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف احتجاج کیا ہے۔
اس نیوز ویب سائٹ نے حماد کباج کا حوالہ دیا ہے، جنہوں نے اس بات کو ’غیر منصفانہ‘ قرار دیا کہ خواتین کے برقعہ پہننے پر تو پابندی لگائی جا رہی ہے جبکہ بکنی جیسے مغربی لباس کے پہننے کو ایک ناقابلِ تردید حق کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ برس کباج کو اُن کے انتہا پسندانہ خیالات کی وجہ سے پارلیمانی ا نتخابات میں حصہ لینے سے منع کر دیا گیا تھا۔
یہ بات واضح نہیں ہے کہ آیا مراکش اپنے اس اقدام کے ساتھ فرانس اور بیلیجم جیسے اُن یورپی ممالک کی تقلید کرنا چاہتا ہے، جہاں عوامی مقامات پر پورے چہرے کو ڈھانپنے والے برقعے پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔
مراکش کے شاہ محمد ششم کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ اعتدال پسندانہ اسلام کو ترجیح دیتے ہیں۔ اُن کے خواتین کو زیادہ حقوق دینے اور زیادہ مذہبی آزادیاں دینے کے احکامات قدامت پسند حلقوں کے غم و غصے کا باعث بنے ہیں۔
سنہ2011ء میں ’عرب اسپرنگ‘ کی انقلابی تحریک کے بعد شاہ محمد نے ایسی کئی اصلاحات متعارف کروائی تھیں، جن کے تحت پارلیمان کو زیادہ اختیارات سے لیس کر دیا گیا تھا اور آزادیٴ اظہار کے حقوق بڑھا دیے گئے تھے۔
اس طرح کی اصلاحات کے باوجود شاہ محمد ہی نہیں بلکہ حکمران ’اسلامک جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی‘ بھی بار بار ایسے الزامات کی زَد میں آئے ہیں کہ وہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
DW