تیس دسمبر 2016 کو چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان میں قائم مذہبی تنظیم کالعدم جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کی قرارداد کو ویٹو کر دیا۔
بھارت نے جیشِ محمد گروپ کے سربراہ جیش محمد پر الزام عائد کیا ہے کہ مولانا مسعود اظہر بھارت میں کئی دہشت گردانہ حملوں کا ماسٹرمائنڈ ہے۔ ان حملوں میں ایک بھارتی ایئر فورس کے بیس پر کیا گیا حملہ بھی شامل ہے۔ دوسری جانب پاکستانی سکیورٹی فورسز نے مولانا مسعود اظہر سے پوچھ گچھ کے بعد ایئر بیس پر حملے میں ملوث ہونے کے بھارتی الزام سے کلیئر قرار دے دیا تھا۔
یاد رہے کہ حکومت پاکستا ن نے جیش محمد پر پابندی کر رکھی ہے۔ آخر وہ کون سی وجوہات ہیں کہ حکومت پاکستان کی طرف سے پابندی عائد کرنے کے باوجود ریاست پاکستان دہشت گرد تنظیم کے سربراہ کا تحفظ کرنے کے لیے چین سے مدد مانگ رہی ہے۔
جرمنی کی ہائیڈل برگ یونیورسٹی میں جنوبی ایشیا کے ماہر سیگفرائیڈ وولف نے جرمن خبررساں ادارے ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کی جانب سے پاکستان کے عسکریت پسندوں کی حمایت کو ایک بڑے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
چین کی طرف سے مسعود اظہر کو تحفظ دینے کامقصد یہ ہے کہ وہ بالواسطہ طور پر پاکستان کو بین الاقوامی طور پر دہشت گرد ریاست قراردینے کی کوششوں کو روکنا چاہتا ہے۔چین پاکستان کا قریبی اتحادی ہے اس کے پاکستان سے بہت سے مفادات وابستہ ہیں اور بھارت چین کا پرانا حریف بھی ہے۔ لہذا وہ بھارت کی طرف سے کسی بھی اقدام کو پاکستان کے حق میں استعمال کرنا چاہتاہے جو کہ اس کی بین الاقوامی سیاست کی ایک حکمت عملی بھی کہی جا سکتی ہے۔
چین پاکستان کو بین الاقوامی فورمز پر ڈائیلاگ اور دوطرفہ باہمی تعاون پر مائل کررہا ہے تاکہ وہ افغانستان،اور وسطی ایشیا میں پاکستان کی سفارتی تنہائی کو کم کر سکے۔
جیش محمد کی حمایت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت کی طرف سے پابندی عائد ہونے کے بعد کہیں یہ گروپ پاکستان کی ریاست کے خلاف ہی ہتھیار نہ اٹھا لے۔یہ صورتحال چین کے لیے کافی خطرناک ہو سکتی ہے کیونکہ چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کررہا ہے جس میں کئی بلین ڈالر کا چائنا پاک اکنامک کاریڈورسر فہرست ہے۔
اس کے علاوہ چین مشرق وسطیٰ میں بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بین الاقوامی دہشت گرد گروپ القاعدہ، داعش اور ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ چین کی طرف سے یوغر میں مسلمانوں کے خلاف پالیسیوں کے سخت خلاف ہیں اور چین مزید کوئی اور مصیبت اپنے سر نہیں لینا چاہتا۔
بھارت، پاکستان کو عالمی طور پر ایک دہشت گرد ریاست ثابت کرنا چاہتا ہے۔ دہشت گردوں پر پابندی عائد کرانے کے بعد وہ پاکستان پر معاشی پابندیاں لگانے کی کی کوشش کر سکتا ہے۔ اگر مغربی ممالک پاکستان پر پابندیاں عائد کر یں تو پھر بھارت کے لیے یہ جواز پیدا ہوجائے گا کہ وہ پاکستان کے اندر موجود دہشت گردوں کو براہ راست نشانہ بنا سکے جو بھارت اور افغانستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔
چین دہشت گردی کے خلاف جو اقدامات کر رہا ہے ا س میں امریکہ اور بھارت شامل نہیں۔ چین بھارت کو اپنا حریف سمجھتا ہے ۔بھارت کے امریکہ سے گہرے تعلقات کو چین اپنے لیے خطرہ سمجھتا ہے ۔ پچھلے سال چین نے روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات بڑھائے ہیں۔اور چین کی کوشش ہے کہ وہ اس خطے میں اپنا سیکیورٹی بلاک بنائے۔ظاہر ہے اس بلاک میں بھارت شامل نہیں ہو سکتا۔
اسی لیے چین پاکستان کی سرحد پار دہشت گردی کی خاموش حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ چین پاکستان کے اندر ان دہشت گرد تنظیموںکی مخالفت بھی کرتا ہےجو اس کے ترقیاتی منصوبوں خاص کر سی پیک کے لیے خطرہ ہیں۔
چین، پاکستان کی حمایت یافتہ عسکری تنظیموں، جو بھارت اور افغانستان میں کاروائیاں کرتی ہیں، کا مخالف نہیں۔ان تنظیموں کے خلاف کسی کاروائی کا مطالبہ خود چین کے مفاد میں نہیں۔ حال ہی میں روس میں ہونے والی چین، پاکستان اور روس کے درمیان القاعدہ اور دولت اسلامیہ کو خطے میں امن کے لیے خطرہ قرار دیا گیا ہے جبکہ پاکستان کے حمایت یافتہ طالبان خاص کر حقانی نیٹ ورک کا اس میں کوئی ذکر نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق پاکستان کا شروع سے ہی ایک کرائے کی ریاست کا کردار ہے۔ پہلے یہ امریکہ کا اتحادی رہا اور اب بدلتے حالات میں چین کے لیے وہی خدمات انجام دینے کےلیے تیار ہے۔ پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ ویسے بھی بھارت کو اپنا دشمن نمبر ایک سمجھتی ہے ۔ لہذا وہ اس اس خطے میں عسکری تنطیموں کی مدد سے بدامنی پیدا کیے رکھے گی۔انہی پالیسیوں کی وجہ سے داخلی طور بھی مذہبی انتہا پسندی ختم ہونے کے کوئی آثار نہیں ۔
اس صورتحال سے نکلنےکا واحد طریقہ یہی ہے کہ پاکستان میں جمہوری عمل مضبوط ہو اور پارلیمنٹ آزادانہ طور پر اپنی خارجہ پالیسی وضع کرے۔جب تک پارلیمنٹ خارجہ پالیسی وضع نہیں کرے گی اس خطے میں بہتری کے کوئی آثار ممکن نہیں۔
یادرہےکہ مولانامسعود اظہر دہشت گردی کی کاروائیوں کی وجہ سے بھارتی جیل میں قید تھے جن کو چھڑانے کے لیے آئی ایس آئی نے نیپال سے بھارت آنے والا طیارہ ہائی جیک کیا تھا جس کے بدلے میں بھارتی جیل میں قید دہشت گردوں کو رہاکروایا گیا تھا جن میں مولانا مسعود اظہر بھی شامل تھا۔
DW/News Desk
♦