آئینہ سیدہ
سارا محلہ تھو تھو کررہا ہے ؟
کیوں ؟
سب کہتے ہیں تمہارا گھرانہ داغدار ہے باپ قاتل ، بھائی پاکٹ مار ، ماں فسادن ، بہن اٹھائی گیر ،بہنوئی نوسر باز ….تو باقی رہ کیا گیا
اوہو ! کیا یہ سب سچ ہے ؟
سچ کو کون تلاش کرے ؟ سچ تک تو پہنچنےنہیں دیا جاتا مگرالزام کوگھرگھرپہنچایا جاتا ہے
تو یہ سب ” الزام کہانیاں ” محلےکےگھرگھر میں پہنچیں کیسے ؟
.چوکیدار …….. تمہیں پتہ ہے نا ہمارا چوکیدارہر وقت “گھرمیں گھسا “رہتا ہےاسکا تو کام ہی یہی رہا
کیا ؟ تمہارا اپنا… … چوکیدار ؟؟
دوستو ! یہ کہانی ہے پاکستان کی ……… ہم لاکھ دنیا کو یقین دلاتے رہیں کہ ہم ایک “مجرم ” ریاست نہیں مگردنیا کبھی یقین نہیں کرے گی ہم نے اپنے ہاتھوں سے وہ گرہ لگائی ہے جو نہ اب اسٹیبلشمنٹ اور نہ ہی عوام اپنے دانتوں سےکھول سکتے ہیں۔
دنیا کہتی ہے پاکستان ” ایک دہشت گرد ملک ہیں۔ ”
جس ملک کا چارحلقوں سےمنتخب پہلا عوامی وزیراعظم قاتل تھا ،غیرجماعتی بنیادوں پر منتخب وزیراعظم نااہل ،اسلامی دنیا کی پہلی اور دوبارمنتخب ہونے والی خاتون وزیراعظم کرپشن کوئین ، دو بارعوام سے “ہیوی مینڈیٹ ” لینے والا منتخب وزیراعظم ہائی جیکر،آزاد پارلیمنٹ سے بھاری اکثریت لینے والا منتخب صدر مسٹر ٹین پرسنٹ اور عوامی پارلیمنٹ کا متفقہ وزیراعظم “توہین عدالت کا مجرم ” یعنی مجرم قوم مجرم نمایندے چنتی ہی چلی جارہی ہے۔
کسی مخبوط الحواس کو بھی پاکستان کے ” منتخب حکمرانوں ” کی یہ تفصیلات فراہم کی جائیں تو وہ بھی آنکھیں بند کر کے کہے گا ” یہ ایک مجرم ریاست ہے جس میں مجرم عوام مجرم نمایندوں میں سے ہی مجرم حکمران منتخب کرتے ہیں “تو پھر کیا ضرورت ہے ہر عالمی فورم پر جاکر اپنی ” بیگناہی اور مظلومیت ” کے بھاشن دینے کی ؟منتخب نمایندوں کو آپ نے ” مجرم ” ثابت کر دیا اور غیر منتخب چوکیداروں کو عالمی اداروں نےمجرم ثابت کر دیا ہے۔
آج پانامہ کیس سچ ہے یا جھوٹ اسکا فیصلہ تو ابھی آنا ہے مگر آئین کو دو بار سب کی آنکھوں کے سامنے توڑنے والا ، دنیا کے سب سے بڑے دہشت گرد کو اپنی” چارپائی” کے نیچے پناہ دینے والا، سب کی آنکھوں میں دھول مٹی جھونک کر اپنے “بیلی “کے کاندھے کا سہارا لے کر یہ جا وہ جا نہ کوئی واویلا نہ کوئی مقدمہ نہ بدنامی۔
اور وہ “پیٹی بھائی” کونسا نہایا دھویا تھا ؟ وہ بھی باس کی طرح بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے چل پڑا۔
یہ ملک خدا داد کی کہانیاں اپنوں کی نہیں ” غیروں ” کی زبانی گھر تک پہنچی ہیں مگر جناب مجال ہے قاتل ،چور،اچکےنوسربازوں کے گھرانے نے انگلی بھی اٹھائی ہو کہ ابے او !ہمیں تو سارے محلے میں بدنام کرتا پھرتا ہے اپنی کرتوتوں کے بارے میں کیا خیال ہے ؟
سوال تو بنتا ہے نا دوستو ! مگراتنا تپڑ یہ گھرانہ کہاں سے لائے جس کو ہر دوسرے دن “کرنی نہ کرنی ” دیکھے بنا اتنا بدنام کر دیا گیا ہے کہ سوال کرنے کا بھی سوال پیدا نہیں ہوتا۔
لیکن دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنا اتنا آسان نہیں جتنا بےبس ، غریب ،ناخواندہ عوام کی آنکھوں میں اور دنیا کا منہ بند کرنا بھی اتنا آسان نہیں جتنا پاکستان کے نام نہاد پڑھے لکھے ،مڈل کلاسیوں کی دو نمبر لبرل اور ایک نمبر رجعت پسند دانشوروں کی کھیپ کا ….. اس کھیپ کو پیدا کرنے والے اور پا ل پوس کر ملک و قوم کی جڑیں ان نو دولتیوں کے ہاتھوں کٹوانے والے بھی اپنے ہی گھر میں گھس کر نقب لگانے والے چوکیدار ہیں
کروڑوں عوام کےووٹ لینےوالےصرف اس ایک ادارے کی جھوٹی ا نا پر قربان کر دیےگئے۔
یہ ملک، اسکی عوام ،اسکا شعور اور نیک نامی مٹی میں ملا دی گئی ہے۔ دنیا کواپنے اوپر الزام لگانےاورانگلیاں اٹھانےکا موقعہ آپ نے خود فراہم کیا کبھی حکومتوں پر قبضہ کر کے تو کبھی عدلیہ کی موم کی ناک کو اپنے حق میں موڑ کراور قومی میڈیا کے تو کیا ہی کہنے…… اسکے تو مائی باپ ہی آپ ہیں !۔
تو جیسے کہ کہنے والے کہہ گئے کہ اختصار میں وقار ہے سو ان دو جملوں میں اس “اقرار جرم” نامی بلاگ کو ختم کرتے ہیں کہ ملک و قوم کو مجرم ” قرار ” دینے کا آغاز بھی آپ نے کیا سو قرار جرم کا آغاز بھی اب آپ ہی کریں۔
♣
2 Comments