عادل بلوچ
مجھے جینے کا حق حاصل ہے! کامریڈ لک میر بلوچ نے کہا ، کیوں؟ کس لیے؟ فرشتہ نما مخلوق کی جانب سے جواب آیا ۔
سورج ڈھلتے ہی جنوری کی سرد شام میں اپنے عظیم گناہوں (بلوچ و بلوچستان کے حقوق کیلئے آواز اُٹھانا) کی پاداش میں خلاء میں فرشتوں کے بنائے گئے عقوبت خانے میں قید بلوچستان کا باشعور سپوت لک میر بلوچ نے معصومانہ انداز سے سر اُٹھاتے ہوئے کرسی لگائے سامنے بیٹھے فرشتوں کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر طنزیہ لہجے میں کہا شائد آپ انسان ہوتے ! نوشتہ ء دیوار پڑھ لیتے ، اس کُرۂ ارض کی خوبصورتی کو محسوس کرتے ، کوئی آپ کو تہذیبوں کے بارے میں بتاتا ، کیا خوب ہوتا آپ ایشیا کی عظیم تہذیب ’’مہر گڑھ‘‘ کے بارے میں جانتے ،کامریڈ نے فرشتوں کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک ہی سانس میں کہا’’ جانتے ہو میں کون ہوں ؟ سامنے بیٹھے فرشتے نے انکار میں سر ہلایا ۔
کامریڈ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا یہی تو فرق ہے انسان اور فرشتوں میں ! خیر ! چلو میں آپ کو بتاتاہوں میں اس عظیم تہذیب ’’مہر گڑھ‘‘ کا باسی ہوں ۔ ہزاروں سالوں سے ہم اس سرزمین ( بلوچستان) میں زندہ انسانوں کی طرح سانس لے رہے ہیں ، ہم اپنی دنیا میں مگن تھے ، ہمارے زمین پر نہ قتل ہوتا تھا نہ فرشتے انسانوں کو غائب کرتے تھے ، ہمارے چرواہا اپنے بھیڑ ، بکریوں کے ساتھ خوش تھے ، ہمارے وادی بولان اور شالکوٹ کسی دوشیزہ کی طرح حَسِین تھے ، ہمارے ماہی گیر امن کے گیت گاکر سمندر میں جاتے تھے ۔مغرب سے آئے مہمان پرندے بلوچستان کے دلکش چٹانوں پر بسیرا کرتے تھے، بلوچستان کے خوبصورت پہاڑ و ں میں جانور ، چَرنّدپَرند بھی آزاد فضاؤں میں سانس لیتے تھے، ہماری مائیں اپنے بچوں کو بہادری کی لوریاں سُنا کر سکون کی نیند سوتے تھے، ہمارے داستاں گوں ’’حانی و شے مرید کی داستانِ عشق پر نازاں تھے،ہماری بہنیں اپنے بھائیوں کی بہادری کی گیت گاتے تھے، ہمارے لوگ جنویت سے نہ آشنا تھے۔
لیکن 18ویں صدی میں ہماری حَسِین زندگی کو کسی کی نظر لگ گئی ۔آپ کے بڑے فرشتے جسے ہم ’’گورے فرشتے ‘‘ کہتے ہیں وہ آئے اور ہماری زمین پر خدائی کا دعویٰ کیا ، لیکن ہمارے آباؤ اجداد جو ہزاروں سالوں سے اسی زمین کے آزاد فضاؤں میں سانس لے رہے تھے وہ اپنی اس عظیم آزادی کو آپ کے گورے فرشتوں کی خدائی میں دینے کو کیسے تیار ہوتے ؟ اسی لیے انہوں نے سرزمین کی محبت میں اپنی حَسِین زندگیوں کو قربان کرتے ہوئے آپ کے گوروں کو یہاں سے بے دخل کیا۔ کامریڈ انتہائی بہادری سے اپنے سرزمین کے داستان کو بیاں کررہا تھا ، تین مہینے سات روز سے تسلسل کے ساتھ تشدد سہنے اور کمزور جسامت کے باجود لکّی جان کی آواز میں دلخراش جوش اور ولولہ تھا ، سامنے بیٹھے فرشتے غصّے سے لال پیلا ہورئے تھے ۔
لیکن کامریڈ نے اُن کی پروا کیے بغیر اپنے باتوں کو جاری رکھا ’’ گورے فرشتوں نے جاتے جاتے آپ’’ کالے فرشتوں‘‘ کو ہماری زمین اور ہمارے لوگوں پر مسلط کردیا ۔ اور آپ کالے فرشتے تہذیب ، تاریخ ، زبان اور ثقافت سے نہ آشنا تھے ۔ آپ کے نزدیک قوم وقومیت کی قدر و قیمت نہ تھی ۔ اس لیے آپ نے آتے ہی ہماری سرزمین کی ہر ایک شے کو تہس نہس کردیا ، آپ طاقتور تھے آپ نے طاقت کی نشے میں زندہ انسانی بستیوں کو روند ڈالا، آپ نے بزرگ ، خواتین اور شیر خوار بچوں تک کو اپنی دردندگی کا نشانہ بنایا ، ہماری حَسِین، محبت اور امن و آشا کی سرزمین اور اُس میں بسنے والے انسانوں کیلئے یہ درندگی نئی چیز تھی ، ہمارے لوگ قتل و غارت گیری سے نہ آشنا تھے ، ہمارے لوگوں کی نزدیک انسان کو قتل کرنا ، انسانی نسل کو روند ڈالنے کا مترادف تھا ۔ البتہ آپ کے طاقتور ہونے ، قتل و غارت گیری کے باجود ہمارے لوگوں نے انسانی وقار کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیا کہ ’’ اگر ہم طاقتور کو قتل نہیں کرسکتے ، لیکن اپنی محبوبہ اپنی حَسِین سرزمین اور اس کے ہزاروں سالوں پر میط تہذیب کی دفاع میں مر سکتے ہیں ‘‘ بلاشبہ مرنے کا اختیار مظلوم کے اپنے پاس ہوتا ہے ۔ یقین کیجیے آپ کی انتا ء کے درندگی بھی ہمیں اپنی قومی شناخت سے دستبردار نہیں کرسکا ۔
یقیناًمیں بہت بول گیا ، لیکن کیا کروں آخر بلوچ ہوں ! اور شائد آپ کے’’ کیوں اور کس لیے ‘‘کا جواب مل گیا ہوگا۔
بکواس، بکواس ، بکواس فرشتہ اپنی کرسی سے اُٹھ کر لک میر جان کے پاس آگیا ۔ بغیر کسی ڈر و خوف کے کامریڈ اس کو دیکھتا رہا ، فرشتہ اپنے غصّے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کررہا تھا ، اپنے آپ سے بڑبڑا رہاتھا ۔ لک میر جان کے سامنے بیٹھ کر کامریڈ کے دونوں ہاتھوں کو زور سے اپنے ایک ہاتھ میں پکڑ کر کہا ’’ایلین کے ایجنٹ ! اپنی باتوں کے زو ر دیتے ہوئے فرشتے نے کہا کہ ’’ اُس سیارے کے ایلین ہمارے خدا، ہمارے مذہب کے خلاف ہیں ۔ کامریڈ ا نتہائی حیرت سے فرشتے کو دیکھ رہا تھا ۔ فرشتے نے دوسرے ہاتھ سے کامریڈ کے بالوں کو روز سے نوچنے کی کوشش کرتے ہوئے بڑبڑایا آپ کافروں کے ساتھ دے کر ہماری خدا کی زمین پر کافروں کا نظام مسلط کرنا چاہتے ہو! فرشتے نے اپنے بات ختم کرتے ہی کامریڈ کو زور سے دھکاّ لگایا ، اور دوبارہ اپنے کرسی پر برجمان ہوگیا، کامریڈ عقب کی دیوار کے ساتھ زور سے ٹکرایا ،لیکن کامریڈ نے منہ سے آہ تک نہیں نکالی اور دوبارہ اُٹھنے کی کوشش کی ۔
کامریڈ نے سانس لیتے ہی انتہائی جرات کے ساتھ منہ فرشتے کی طرف کرتے ہوئے کہا مجھے معلوم تھا آپ احمقوں کی جنت میں رہتے ہو۔ فرشتے نے کچھ بولنے کی کوشش کی لیکن کامریڈ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا ’’اُس سیارے کے ایلین آپ کے چچا زاد بھائی ہیں ،میرا تو نسلوں تک اُن سے رشتہ داری بھی نہیں ، ،چچا زاد بھائی آپ کے اور ایجنٹ ہم؟ فرشتہ جو شیشے کے گلاس سے پانی پی رہا تھا یہ بات سنتے ہی شائد پانی گلے میں اٹک گئے ، فرشتے نے پانی کے ساتھ گلاس زور سے کامریڈ کو دے مارا لیکن خوش قسمتی سے کامریڈ نے منہ نیچے کیا گلاس دیوار کو لگا۔ وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر گالیاں بک رہا تھا کامریڈ اب بھی اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔ فرشتے کی خاموش ہونے کے چند سکینڈ ز بعد کامریڈ نے دوبارہ بولنا شروع کیا’’ جناب والا جس وقت آپ کا جنم نہیں ہوا تھا اُس وقت یہ سیارہ ایک ہی ہوتا تھاجس میں آپ کے والد صاحب اور آپ کے چچا رہتے تھے ۔
اُس وقت ہم اپنی سرزمین کے دشت و صحراء میں مال و مویشیوں کے ساتھ اپنی دنیا میں خوش تھے ۔آپ کے جنم سے ہزاروں سال قبل سے ہمارا اپناخدا اور اپنامذہب تھا، اپنی تاریخ و تہذیب تھی نہ ہماری سرزمین میں کوئی کسی کو کافر کہتا تھا نہ کسی کو مذہب بدلنے پر مجبور کیا جاتا تھا۔ اڑے ہماری سرزمین میں تو کوئی جانتا بھی نہیں تھا کہ یہ کافر ہوتا کیا ہے! آپ کے جنم سے قبل ہم جانتے بھی نہیں تھے ہر ایک کا اپناخدا ہوتا ہے ، ہم تو سمجھتے تھے پوری کائنات کا ایک ہی خدا ہے ! ہم مذہب کو انسان اور خدا کے درمیان کا معاملہ سمجھتے تھے ۔
لیکن آپ نے ہماری روایات کو اپنی جنونیت کے پاؤں تلے روندا۔ عقوبت خانے میں ایک لمحہ کیلئے عجیب و غریب خاموشی چھاگئی۔ کامریڈ نے اپنی آنکھیں زمین کی جانب کرکے دائیں بازو کی اُنگلی سے فرش پر ایک نقشہ بنانے کی کوشش کی ۔ چند سکینڈز بعد کامریڈ نے خاموشی توڑتے ہوئے دوبارہ فرشتے کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا آپ تاریخ کے اَوراق پلٹ کر دیکھ لو بلوچوں نے کبھی کسی غیر کے سیارے میں خدائی کا دعویٰ نہیں کیا ، ہمارے آباء واَجداد نے کبھی اپنے مذہب کو آپ کے سیارے میں مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی ۔ ہم نے اپنے پڑوسیوں کو کبھی کافر نہیں کہا! جناب والا گستاخی معاف، چلو بلوچ کافر ہی سہی، لیکن یہ نقطہ کس روح سے جائزہے کہ آپ بلوچوں پر خدائی کریں؟
کامریڈ لک میر کو معلوم ہی تھا کہ یہ مکالمہ اُس کیلئے مزید مشکلات کی باعث بنے گا ۔ لیکن کامریڈ پر الزام ہی اسی بات کے تھے وہ اپنے قومی حقوق کیلئے بولتا تھا ۔
ابھی کامریڈ کی بات ختم کہاں ہوئی ، فرشتہ اتنی شدت سے اُٹھتا ہے کہ کرسی پیچھے دیوار سے جا لگتی ہے ، دیکھتے ہی دیکھتے فرشتے کے ہاتھ کامریڈ کے بازوں کو زور سے کھینچے ہوئے کامریڈ کو کوٹی (کمرے) سے باہر نکالا، کوٹی کی بائیں طرف اسی طرح کی سینکڑوں کوٹیاں تھی ۔ فرشتہ اپنی پوری شدت کے ساتھ کامریڈ کے بائیں بازو کو پکڑے ہوئے تھا اور اسی شدت سے قدم اٹھارہا تھا ۔ غصے کی شدت سے اُس کے چہرے پر عیاں تھی اور زور زور سے کامریڈ کو کہہ رہا تھا دیکھ ان کا انجام ! یہ بھی آپ کی طرح بولتے تھے ۔کسی کوٹی میں تشدد ہورہا تھا تو کسی میں لاشوں کی ڈھیر پڑے تھے ۔فرشتے نے جب کامریڈ لکّی کی جانب دیکھا تو کامریڈ وہی معصومانہ انداز میں ان سب کو دیکھ رہا تھا ، چہرے کے تاثرات بالکل بھی نہیں بدلے ۔
فرشتے نے محسوس کیا کہ اس بندے پر کچھ اثر نہیں ہورہا ، تو کامریڈ کو ایک اور کوٹی میں لے گئے جہاں پہلے سے موجود ایک قیدی پر فرشتے تشدد کررہے تھے اور وہ زور زور سے چیخ رہا ہے ۔ فرشتے نے داخل ہوتے ہی وہاں پہلے سے موجود کرسی پر خود بیٹھ گئے کامریڈ کو فرش پر بیٹھنے کیلئے کہا ، پانچ منٹ تک خاموشی رہی، فرشتہ کبھی کامریڈ کو تو کبھی اُس قیدی کو دیکھتا رہا ، لیکن کامریڈ مسلسل اُس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا ۔ دیکھ رہے ہو ان کا انجام ؟ فرشتہ نے کامریڈ کو دیکھتے ہوئے سوال نما لہجے میں کہا ، جی ہاں ، کامریڈ نے جواب دیتے ہی سوالات کے انبار لگادیے ۔
کتنے سالوں سے یہ کام کررہے ہو؟ کتنے معصوموں کا سفاک قتل کیا؟ کتنوں کو بے گور و کفن دفنا دیا؟ کتنوں کو ندی نالوں میں پھینکا؟ کیا بدلا؟ بلوچ اپنے قومی شناخت سے دستبراد ہوئے ؟ نوجوانوں نے سوالات کرنا چھوڑ دیے؟ بلوچستان کو فتح کیا؟ بلوچستان کے لوگ اپنے ہزاروں سالوں کے تاریخ ، تہذیب ، ثقافت اور روایات کو بھول گئے؟ بلوچستان میں آپ کی خدائی قائم ہوئی ؟ نہیں ، نہیں ، نہیں کامریڈ زور زور سے کہتے ہوئے فرش سے اُٹھ گئے ۔ ایک لمحہ میں سانس لیتے ہوئے دوبارہ بولنا شروع کیا ’’آپ کیا سمجھتے ہو ہمارے لوگوں کو غائب کرکے یہاں اپنے عقوبت خانوں کو آباد کرکے آپ ہماری زمین سے انسانی نسل ناپید کریگے ؟ تو جنابِ والا یہ آپ کا بھول ہے ! جہاں یہ سرزمین امن و آشا ، مہر و محبت کا سرزمین ہے وہاں اس سرزمین نے حمل جیئند، دادشاہ، بالاچ گورگیج، میرقمبر جیسے بہادر سپوت بھی پیدا کیے۔
فرشتہ کامریڈ کو بات آگے بڑھانے سے روکنے کیلئے جلدی سے اپنی کرسی سے اُٹھ گیااور زور سے کامریڈ کو لات مارتے ہی کامریڈ کو گردن سے پکڑا اور ساتھ ہی موجود فرشتوں نے شدت سے کامریڈ پر لاتوں گھونسوں کا بارش کردی ، یہ تو کامریڈ کیلئے روز کا معمول تھا !لیکن کامریڈ کی باتیں کسی تیز دار آلے کی طرح فرشتوں کو کاٹ رہی تھیں ۔ لاتوں ، گھونسوں کا سامنا کرنے کے بعد کامریڈ کو جلدی جلدی سے دوبارہ اسی کوٹی میں لے گئے ۔
کامریڈ کو فرش پر بیٹھنے کا حکم دیا، اور خود دوبارہ اسی کرسی پر بیٹھ گئے ۔ چند لمحوں تک کوٹی میں خاموشی رہی ۔ فرشتہ خاموشی سے کامریڈ کو دیکھ رہا تھا جبکہ دوسری جانب سے کامریڈ بھی زخمی حالت میں فرشتے کو دیکھتا رہا۔
فرشتے نے خاموشی کو توڑتے ہوئے کہا ’’لگتا ہے آپ نے کافروں کی کتابیں بہت پڑی ہیں ! یہ کتابی باتیں ہمیں سُناناچھوڑدیں ، ہم بلوچوں کو ایسا سبق سکھائیں گے کہ تاریخ یاد رکھے گی۔
پھر سے کوٹی میں خاموشی چھاگئی ، لیکن بلوچستان کاباشعور سپوت کامریڈ لک میر جیسا انسان کہاں خاموش ہونے والا تھا، چند لمحوں کے بعد کامریڈ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ طنزیہ لہجے میں فرشتے کو دیکھتے ہوئے کہا’’جناب آپ نے کوئی ویت نام نامی شے کے بارے میں سُنا ہے؟ کامریڈ نے فرشتے کو جواب کا موقع نہ دیتے ہوئے بات کو آگے بڑھایا ، ویسے میں نے غلط جگہ پر صیحح سوال پوچھا! دیکھے تو سہی آپ کو تاریخ کے تلخ حقائق پڑھنے سے کیا تعلق! آپ کو تو گورے فرشتوں نے تاریخ پڑھنے سے بری الذمہ قرار دیا! لیکن چلو میں آپ کا دل رکھنے کیلئے آپ کو بتاتا ہوں ! کامریڈ اپنے معصومانہ انداز سے مسکرارہا تھا اور سامنے بیٹھے فرشتے کا منہ دیکھنے لائق تھا۔
تو جنابِ والا بات یہ ہے کہ ویت نام آپ جیسے فرشتوں کا سیارہ نہیں بلکہ ہمارے جیسے انسانوں کی سرزمین ہے ، وہاں بھی آپ کے جیسے کالے ، گورے مکس فرشتوں کے لشکر نے خدائی کا دعویٰ کیا ! لیکن جنابِ والا وہ سب سے طاقتور فرشتوں کا لشکر تھا ، اُنہیں اپنی خدائی پر ناز تھا ، وہ ہر قسم کے طاقت سے لیس تھے ۔ اُنہوں نے بھی آپ کی طرح درندگی کی تاریخ رقم کی ،زندہ لوگوں کوجلتی آگ میں دھکیل دیا، اُنہوں نے بھی آپ کی طرح کہا تھا ’’ہم ویت نامیوں کو سبق سکھائیں گے ! کامریڈ نے سوال نما لہجے میں کہا ’’ پتہ ہے پھر کیا ہوا؟ کامریڈ نے پر جوش انداز میں بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا’’ طاقتور فرشتوں کی لشکر تاریخ کی سب سے عبرت ناک شکست سے دوچار ہوا،۔
کامریڈ نے اُسی انداز سے بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا ’’ طاقتور لشکر کے سپاہ سالار نے ویت نام سے نکلتے نکلتے کہا اگر ہمارالشکر دنیا کے تمام فرشتوں کے لشکروں سے جنگ کرتا تو سب کو شکست دیتا، لیکن افسوس ہمارے لشکر کا سامنا ایک قو م کے ساتھ ہوا اور قوموں کو دنیا کی کوئی بھی طاقت شکست نہیں دے سکتی۔
جنابِ والا امید کرتے ہیں کہ دنیا کے طاقتورترین فرشتوں کی لشکر کے سپاہ سالار کا آخری جملہ آپ کی سمجھ میں آگیا ہوگا !
فرشتے نے کامریڈ کی جانب سے منہ موڑتے ہوئے ساتھ میں رکھے کسی لوہے کی چیز کو زور سے کامریڈ کے منہ پر مار کر کوٹی کے دروازے کو زور سے بند کرکے باہر نکل گیا۔۔۔
اور کامریڈ وہی مصومانہ انداز سے مسکرارہا تھا۔
♦