ایمل خٹک
سوشل میڈیا پر حالیہ کریک ڈاؤن پر جاری بحث کے تناظر میں کئی معاشرتی مسائل سامنے آرہے ہیں ۔ جس میں سے ایک اہم مسئلہ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ایکس کلوسیو نیس (تنگ نظری یا متعصب پن ) بھی ہے۔ ایک ریس لگی ہوئی ہے۔ کوئی ان بلاگرز کو حب الوطنی کے دائرے سے نکال باہر کر رہا ہے تو کوئی انہیں توہین مذہب کا مرتکب قرار دے رہا ہے۔درحقیقت تنگ نظری ایک معاشرتی بیماری ہے۔
جب ہم بیمار معاشروں کی بات کرتے ہیں تو بیمار معاشروں سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں وہ کونسی معاشرتی علامات ہونگی جس کی بنیاد پر ہم کسی معاشرے کو بیمار معاشرہ کہہ سکتے ہیں ۔ بیمار معاشرے کی پہچان کیا ہے۔ بیماری کی علامات کیا ہونگی اور اوراس کے معاشرے پر اثرات کیا ہونگے۔ کوئی بھی سماجی امور کا ماہر اس کی مختلف تعریف کرسکتا ہے ۔
مگر میرے خیال میں کسی معاشرے کی صحت اور بیماری جانچنے کا کئی پیمانوں میں سے ایک بنیادی پیمانہ اس میں کتنا تعصب پایا جاتا ہے۔ مطلب کسی معاشرے میں تنگ نظری کی سطح جتنی زیادہ ہوگی اتنا وہ معاشرہ بیمار ہوگا ۔ تنگ نظری یا متعصب پن (ایکس کلوسیو نیس) اس عمل کو کہتے ہے جس میں افراد کو کسی بھی سماجی گروہ سے مطابقت نہ رکھنے یا اختلاف نظر کی بنا پر پر خارج کیا جاتا ہے ۔ ہر برادری یا طبقہ یا گروہ خود ہی اچھے یا برے کے پیمانے مقرر کرتے ہے اور جو ان پر پورا اترتا ہے وہ تو اس دائرے میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ مگر جو نہیں اترتا وہ خارج سمجھا جاتا ہے۔ اکثر کیسوں میں خارج شدہ افراد کو گروہ کے دیگر اراکین کی طرف سے توہین آمیز اور امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تنگ نظری کی بیماری لگنے سے قوم، قومیت، برادری ، مذہب ، فرقہ اور مسلک، سیاسی اور سماجی گروہ سمیٹنا اور محدود ہونا شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ کبھی ایک اور کبھی دوسرے بہانے سے لوگوں کو اپنے لسانی ، مذہبی یا سیاسی دائرے یا گروہ سے خارج کیا جاتا ہے یا خارج سمجھا جاتا ہے ۔ اگر ایک مذہب یا فرقہ یا مسلک یا سیاسی اور سماجی گروہ یا قومیت اور قوم کو ایک دائرہ فرض کرلیں تو ہر مخصوص دائرے میں شامل رہنے کیلئے کچھ عمومی علامتیں یا معیار یا اوصاف یا اصول مقرر ہوتے ہیں جس کی بنا پر اس بات کا تعین ہوتا ہے کہ کون اس دائرے میں شامل ہے اور کون نہیں۔
مذہبی گروہوں میں ان اصولوں ، معیارات اور اوصاف کو آسمانی سمجھا جاتا ہے اور اس کو تقدس کا درجہ دیا جاتا ہے ۔ جبکہ دیگر سماجی گروہوں میں یہ آسمانی تو نہیں سمجھے جاتے مگر اس کی پاسداری لازمی سمجھی جاتی ہے۔ آسانی اور سمجھنے کیلئے ان اصولوں اور اوصاف وغیرہ کی درجہ بندی ظاہری علامات اور نظریاتی یا فکری یکسانیت میں کرسکتے ہیں ۔ یعنی ہر دائرہ یا سماجی گروہ عموماً ایک تو اپنے ارکان سے ایک مخصوص قسم کی ظاہری وضع قطع ، علامات اور لباس وغیرہ اور دوسرا مخصوص سوچ ، کردار اور رویوں کا متقاضی ہوتا ہے۔
دائروں میں موجود افراد کو اس کے اصولوں اور معیارات کے ساتھ مطابقت اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور مطابقت پیدا نہ کرنے والوں کو خارج کیا جاتا ہے ۔ سوشلائزیشن یا سماجی میل جل کے عمل میں ان دائروں کے معیارات، اصول اور اوصاف کو سیکھا جاتا ہیں ۔ دائروں میں موجود افراد کو اس کے اصولوں اور معیارات کے ساتھ مطابقت اختیار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے اور مطابقت پیدا نہ کرنے والوں کو خارج کیا جاتا ہے ۔
دائرے بننے اور ٹوٹنے کا عمل خود رو نہیں ہوتا اور ہر سماجی مظہر کی طرح نہ تو یہ دائرے ابدی ہیں یہ وقت اور حالات کے ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں ۔ نئے دائرے بنتے ہیں پرانے ٹوٹتے ہیں ۔ ان دائروں میں ٹوٹ پھوٹ اور تغیر اور تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ مفادی حلقے ریاستی بھی ہوسکتے ہیں اور غیر ریاستی اس کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ دائروں کے بننے اور ٹوٹنے کے عمل میں خاص کر ریاستی پالیسیوں کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ۔
کسی خاص کمیونٹی یا سیاسی یا مذہبی یا سماجی گروہ یا ملک میں رہنے کے پیمانے، علامتیں ، اوصاف ، اصول جتنے زیادہ لچکدار اور نرم ہوتے ہیں وہ انکلوسیو کہلاتا ہے مثلا اس میں زیادہ سے زیادہ افراد کو اپنے آپ میں سمونے ، شامل کرنے یا رکھنے کرنے کی گنجائش ہوتی ہے ۔ اور جن کے پیمانے، اوصاف اور اصول زیادہ سخت اور غیر لچکدار ہوتے ہیں وہاں کم سے کم افراد کو اس میں رہنے یا شامل رہنے کی گنجائش ہوتی ہے جبکہ افراد کو دائرے سے باہر کرنے کا رحجان زیادہ ہوتا ہے۔ ایسا معاشرہ یا گروہ تنگ نظر یا ایکس کلوسو کہلایا جاتا ہے ۔ معاشرتی گھٹن ، خوف ، عدم تحفظ ، عدم رواداری اور برداشت ، نفرت، امتیاز اور تشدد میں اضافہ اس بیماری کی عام علامات ہیں۔
اس طرح ذہنی یا فکری بانجھ پن بیمار یعنی ایکس کلوسیو معاشروں کا خاصہ ہوتی ہے۔ فکری بانجھ پن کی کئی وجوہات ہوتی ہیں۔ ہر مخصوص دائرہ مثلا فرقہ یا مسلک اپنے اوصاف کو سب سے زیادہ اچھے، برتر اور بہتر سمجھتے ہیں ۔ تنقید کی بجائے تقلید کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔ اپنے عقائد ، رسومات اور تقریبات وغیرہ کو تقدس کا درجہ دیتے ہیں ۔ بہت سی سماجی چیزوں کو تقدس کا لبادہ اوڑھا کر آسمانی چیزوں کا درجہ دیتے ہیں مثلا مختلف مذہبی جلوس وغیرہ۔ اس طرح اپنے سے باہر دیگر دائروں کو نسبتا کم تر سمجھا جاتا ہے۔ ان کے عقائد، مذہبی یا غیر مذہبی رسومات ، کلچر وغیرہ کا مذاق اڑایا جاتا ہے یا تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ دائرے اکثر و بیشتر اجتماعی نرگسیت کے شکار ہوتے ہیں۔
دائرے سے نکالے گئے افراد کو اکثر مخصوص ناموں یا القابات سے نوازا جاتا ہے ۔ مثلا مرتد ، کافر ، غدار ، منحرف ، گمراہ وغیرہ وغیرہ۔ دائرہ یا سماجی گروہ میں نکالے گئے افراد کیلئے سزا دینے کا رواج بھی پایا جاتا ہے ۔ سزا کی دو قسمیں عام ہیں۔ ایک امتیازی سلوک جیسے مخصوص القابات سے نوازنا، سماجی بائیکاٹ وغیرہ اور دوسرا جسمانی جیسے مارنا پیٹنا اور جان سے مارنا شامل ہوتا ہے۔ جن دائروں میں رواداری اور برداشت کی زیادہ کمی ہوتی ہے مثلا بعض مذہبی دائرے تو وہاں نکالے گئے افراد کو یا تو سخت امتیازی اور تو ہین آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یا اس کو مارا جاتا ہے۔
تنگ نظری کے دو اثرات اہم ہیں ۔ جس طرح پہلے بھی ذکر ہوا کہ اس میں دائرے سے افراد کے نکالنے کا رحجان زیادہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے یہ دائرے سمٹتے اور محدود ہوتے جاتے ہیں ۔ دوسرا دائرے سے افراد کو خارج کرنے یا دھکیلے اور نکال باہر کرنے کے اس عمل میں اکثر خارج کئے گئے افراد کا دائرے سے متعلق رویہ مخاصمانہ اور منفی بن جاتا ہے ۔ کیونکہ اگر کوئی فرد لاشعوری طور پر اور یا اپنی لا علمی یا سادگی کی وجہ سے بھی اس گروہ کے معیارات کا لحاظ نہیں رکھتا یا اختلاف نظر رکھتا ہے تو اس کو باہر کیا جاتا ہے ۔ جتنا زیادہ اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے اور اس کے ساتھ امتیازی اور ناروا سلوک برتا جاتا ہے ۔ دائرے سے خارج یا باہر دھکیلے گے فرد کا رویہ اتنا ہی اس دائرے کے حوالے سے منفی، مخالفانہ اور جارحانہ ہوگا۔
دائروں سے نکالنے کا کام اجتماعی طور پر بھی ہوتا ہے اور انفرادی طور پر بھی ۔ ریاستی سطح پر دائروں سے نکالنے کا کام اکثر دو طرح سے ہوتا ہے ایک رسمی طور پر اور دوسرا غیر رسمی طور پر ۔ اس طرح دائرے سے افراد کو نکالنے کا کام دو قسم کے مفادی حلقے کرتے ہیں ۔ ایک ریاستی اور دوسرا ریاست کے زیر اثر یا پروردہ افراد کے ذریعے ۔
اب اس بحث کے نتیجے میں اگر پاکستانی معاشرے کو دیکھا جائے تو یہ ایک بیمار معاشرہ ہے ۔ ایکس کلوسیونیس (تنگ نظری) کی بیماری کے جراثیم ہر معاشرے میں کسی نہ کسی شکل اور سطح پر موجود ہوتے ہیں ۔ مگر معاشرہ تب بیمار کہلایا جاتا ہے جب یہ بیماری زندگی کے ہر پہلو ، سطح اور شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی میں چاہے قانون ہے حکومت ہے معاشرت ہے مذہب ہے سیاست ہے برادری ہے عام شہری کسی نہ کسی قسم کی تنگ نظری کا شکار ہوتا ہے۔
شہریوں کو جنس ، رنگ و نسل، نظریات ، مذہب ، مسلک اور فرقہ ، قومیت ، علاقہ اور جنس کی بنیاد پر تنگ نظری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس بنیاد پر نفرت ، تعصب ، امتیازی سلوک اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔ اور مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور ثقافتی دائرے روز بروز اس بیماری کی وجہ سے سکڑتے جا رہے ہیں ۔
یہ بیماری پیچیدہ اور خطرناک اس وقت بن جاتی ہے جب شہریوں کو بلا سوچے سمجھے کسی مخصوص دائرے سے تعلق رکھنے کی بنا پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے حالانکہ اس فرد کو اپنا دائرہ پہلے خارج کر چکا ہوتا ہے ۔ مثال کے طور پر فرقہ وارانہ فسادات میں بہت سے ایسے لوگ بھی تشدد کا نشانہ بنے جس کو اپنے دائرے ان کی لبرل یا غیر فرقہ وارانہ سوچ کی وجہ سے خارج سمجھتے ہیں۔ مگر تشدد کرنے والوں کیلئے وہ ان کے مخالف دائرے کا حصہ ہوتے ہیں۔
♥