شاہد اقبال خان
جنرل (ر) امجد شعیب کے مطابق جنرل (ر) راحیل شریف نے اسلامی فوجی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کے لیے تین مطالبات کیے ہیں۔ ایران کو اس اتحاد میں شامل کیا جائے۔ ان کی کمان میں کسی قسم کی مداخلت نہ کی جائے اور آخری مطالبہ یہ کہ جنرل صاحب اسلامی ممالک کے درمیان مصالحتی کردار ادا کریں گے۔ ان تینوں مطالبات کو دیکھ کر ایک لمحے کے لیے وہ تمام خدشات غلط محسوس ہونے لگتے ہیں جو میں نے اپنی پچھلی تحریر “اسلامی فوجی اتحاد کے اثرات اور خدشات” میں بیان کیے تھے۔ اگر حقائق کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے تو وہ کافی مختلف تصویر پیش کرتے ہیں۔
سعودی حکومت پہلا مطالبہ آسانی سے مان جائے گی۔ ایران کو خط لکھ کر شمولیت کی باقاعدہ دعوت دی جائے گی کیونکہ سعودی حکومت یہ جانتی ہے کہ ایران اس اتحاد میں شمولیت کی دعوت قبول نہیں کرے گا۔ اس کا ایک پس منظر ہے۔ یمن میں سنی مسلک کے حکمرانوں کی بادشاہت کے خلاف شیعہ اکثریت پر مشتمل عوامی بغاوت ہوئی۔ سعودی عرب نے اسے بد امنی کا رنگ دے کر یمنی حکومت کی مدد کے لیے باغی گروپوں پر دھاوا بول دیا۔ سعودی حکومت جنگ جیتنے میں تو کامیاب ہوئی مگر اسے شدید اخلاقی شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ پوری اسلامی دنیا کے سوشل میڈیا پر سعودی عرب کے اس قدم کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ تب سعودی حکومت نے امریکی ماڈل کی تقلید کا فیصلہ کیا۔ امریکی ماڈل کیا ہے؟؟؟
دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر ایٹم بم گرا کر امریکہ جنگ تو جیت گیا مگر لاکھوں لوگوں کے قتل عام کے مجرم کے طور پر عالمی برادری میں اس کی بہت سبکی ہوئی۔تب امریکی تھنک ٹینک نے دو فیصلے لیے۔ پہلا یہ کہ ظالم ہٹلر کو اتنا ظالم بنا کر پیش کیا جائے کہ تاریخ چنگیز اور ہلاکو خان کو بھول جائے۔اس سلسلے میں میڈیا، فلم اور لٹریچر کا سہارا لیا گیا۔ اور ہٹلر کے مظالم کو ڈھال بنا کر ایٹمی قتل عام کا دفاع کیا گیا۔
دوسرا اور سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ مستقبل میں امریکی حملوں کو عالمی برادری کے حمایت دلوائی جائے تاکہ اخلاقی محاذ پر لڑا جا سکے۔ اس سلسلے میں دو قدم اہم تھے۔اقوام متحدہ کا قیام جس سے ہر حملے کو سیاسی حمایت ملی اور دوسرا نیٹو کا قیام جس سے ہر حملے میں پوری دنیا کو شریک کیا گیا اور یہ تاثر دیا گیا کہ امریکہ اپنی نہیں اقوام عالم کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اب سعودی عرب بھی اس اتحاد سے یہ تاثر دینے کی کوشش میں ہے کہ وہ اپنی نہیں عالم اسلام کی جنگ لڑ رہا ہے۔ نیٹو اتحاد کمیونزم اور کمیونسٹ ممالک کے خلاف تھا تو وہ ممالک اس اتحاد کا حصہ کیسے بن سکتے تھے۔ یہ اتحاد بھی ایران سمیت جن ممالک کے خلاف ہے وہ بھی اس اتحاد کا حصہ کیسے بن سکتے ہیں؟؟؟
دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ جنرل راحیل شریف کی کمان میں مداخلت نہ کی جائے۔ اس سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ شاید یہ اختیا راحیل شریف کے پاس ہو گا کہ کس سے جنگ کی جائے، کہاں کی جائے اور کب کی جائے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ یہ فیصلہ اتحاد میں شریک ممالک کے سیاسی نمایندے کریں گے۔ راحیل شریف صاحب کی کمان آپریشنل معاملات تک ہو گی۔ جب انہیں کسی جگہ آپریشن کا کہا جاے گا تو یہ فیصلہ وہ کریں گے کہ جنگ کا طریقہ کیا ہو گا۔ اگر اپنے ہی لوگوں کے خلاف جنگ کا حکم ہو تو اپنے ہی لوگ مریں گےچاہے جنگ جس طریقے سے مرضی لڑی جائے۔
تیسرا اور اہم مطالبہ یہ ہے کہ جنرل صاحب کو مصالحتی کردار دیا جائے۔ اگر اس بات کو من و عن مان لیا جاتا ہے اور وہ کوئی مصالحت کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو تاریخ کے میوزیم میں ان کے مجسمے کے سامنے ذولفقار بھٹو اور مہاتیر محمد جیسے لیڈرز بہت بونے نظر آئیں گے مگر یہاں دو سوال اہم ہیں۔
مصالحتی کردار کا مطلب کیا ہے؟ کیا وہ صرف رابطہ کار ہوں گے یا پھر ان ممالک کے درمیان معاملات کو بہتر بنانے کے لیے انہیں کوئی فیصلہ سازی کا اختیار بھی دیا جائے گا؟؟ اگر انہیں کسی بھی قسم کی فیصلہ سازی کا اختیار نہیں ملتا اور وہ صرف رابطہ کاری کا کام کرتے ہیں تو یہ ہاد رکھیے کہ فوجی جرلز کبھی اچھے سفارتکار نہیں ہوتے۔ اسی لیے ایوب خان کو بھٹو اور پرویز مشرف کو خورشید قصوری کی ضرورت پڑی۔ جہاں تک جنرل راحیل شریف کو مختلف ممالک کے درمیان تعلقات بہتر کرنے کے لیے کسی بھی قسم کے فیصلہ سازی کے اختیارات دینے کا سوال ہے تو یقین مانیے ایسا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
♦