ایمل خٹک
جب سے سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی 39 اسلامی ممالک کی افواج پر مشتمل فوجی اتحاد کی سربراہی کا عہدہ قبول کرنے کی افواہیں عام ہونا شروع ہوئیں تو اس روز سے پاکستان میں اس موضوع پر زبردست بحث شروع ہوچکی ہے ۔ جنرل صاحب کی جانب سے تو ابھی تک اس سلسلے میں کوئی رسمی بات سامنے نہیں آئی مگر حکومتی ذرائع اور ان کے قریبی حلقوں کی جانب سے اس حوالے سے خبریں اخبارات کی زینت بن رہی ہیں ۔ حتی کہ ان کی ممکنہ تنخواہ اور مراعات وغیرہ کی خبریں بھی شائع ہورہی ہیں۔ جنرل راحیل شریف سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے ایک دفاعی تجزیہ کار جنرل ( ر) امجد شعیب نے تصدیق کی ہے کہ انہوں نے اپنی تین شرائط منوانے کے بعد عہدہ قبول کرنے کی حامی بھری ہے ۔ ان شرائط میں ایران کی اتحاد میں شرکت اور کسی کے کمان میں کام نہ کرنا شامل ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق ان کو اس عہدے کی پیش کش دوران ملازمت بھی ہوئی تھی ۔ اور ریٹائرمنٹ کے وقت بھی ان کی اسلامی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کی افواہ زیر گردش تھی۔ مگر ان کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران ان اطلاعات نے زور پکڑا۔ حکومتی حلقوں کی جانب سے متضاد بیانات سامنے آئے ہیں ۔ پاکستانی وزیر دفاع نے کچھ دن پہلے ایک میڈیا انٹرویو میں کہا تھا کہ ان کی تقرری کا فیصلہ حکومتی مشاورت سے ہوا ہے اور اس فیصلے میں حکومتی اور عسکری قیادات کی رضامندی شامل ہے۔ جبکہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار اور وزیراعظم کے مشیر مصدق ملک کے بیانات یکسر مختلف تھے اور انہوں نے ایسے کسی فیصلے سے لا علمی کا اظہار کیا ۔ اس اہم مگر متنازعہ تقرری کے حوالے سے ابھی تک حکومت اور جنرل راحیل کی جانب سے کوئی واضع موقف سامنے نہیں آیا۔
اس بحث نے کئی اہم سوالات کو جنم دیا ہے سب بڑا سوال تو یہ کہ آیا چیف آف آرمی سمیت دیگر اہم ریاستی عہدوں پر فائز شخصیات کو جن کی دوران ملازمت اہم سرکاری امور اور رازوں تک رسائی ہوتی ہے ریٹائرمنٹ کے بعد بیرون ملک ملازمت کی اجازت ہونی چائیے یا نہیں ۔ اور سرکاری افسران کی ریٹائرمنٹ کے قواعد و ضوابط کیا ہیں اور آیا اس کیس میں ان کا لحاظ رکھا گیا یا نہیں۔ اس سوال کا جواب بھی ابھی نہیں ملا کہ حکومت نے انہیں عہدہ ملا زمت کیلئے این او سی جای کیا ہے کہ نہیں۔
اس بحث کے اگر ایک طرف مذہبی تو دوسری طرف سیاسی اور نظریاتی پہلو بھی ہے ۔ اسلئے یہ بحث ملک میں بیک وقت شدید مذہبی صف بندی اور نظریاتی صف بندی دونوں کی غمازی کر رہی ہے ۔ آزاد مبصرین کی اکثریت اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ جبکہ موجود مذہبی صف بندی کی وجہ سے کچھ سنی اور سلفی حلقے اس کی حمائت جبکہ ایران نواز شیعہ حلقے اس کی مخالفت کر رہے ہیں ۔ مخالفت اور حمایت کرنے والوں کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں ۔
بیشک اس فیصلے سے جنرل (ر) راحیل شریف کی مقبولیت کا گراف کافی گرا ہے۔ اور کافی منفی تبصرے سامنے آرہے ہیں ۔ اور حتی کہ کئی دفاعی تجزیہ نگاروں نے جس میں ریٹائرڈ فوجی افسران بھی شامل ہیں اس فیصلے کے ممکنہ منفی اثرات کی وجہ سے اس کی مخالفت کی ہے۔ اور اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس سے پاکستان کیلئے داخلی سلامتی اور سفارتی مشکلات پیدا ہوسکتی ہے ۔
کسی پاکستانی اور وہ بھی سابق آرمی چیف کا اس اتحاد کا سربراہ بننے سے پاکستان کی غیرجانبدار حیثیت متاثر ہو جائیگی۔ دوسرا پاکستانی پارلیمان کی قرارداد کی موجودگی میں کسی اعلیٰ ترین سرکاری شخصیت کی بیشک وہ ریٹائر کیوں نہ ہو اس اتحاد میں شرکت ایک دانشمندانہ اقدام نہیں ۔
اس نام نہاد اسلامی فوجی اتحاد کے غرض و غایت بڑی مبہم ہے ۔ سعودی عرب کی سربراہی میں قا ئم اس اتحاد سے کچھ اسلامی ممالک ایران ، عراق ، یمن اور شام وغیرہ جس میں کچھ اس کے ہمسایہ بھی ہیں کو اس سے باھر رکھا جا رہا ہے ۔ جو واضح طور پر اس بات کی غمازی کر رہی ہے کہ سعودی عرب اس اتحاد کو اپنے مفادات کی فروغ اور تحفظ کیلئے استعمال کر رہا ہے۔ اسلامی اتحاد کے نام پر سعودی عرب اپنے سیاسی عزائم کو پروان چڑھانے کی کوشش میں ہے۔
سعودی عرب اتحاد کو اپنے روایتی حریف ایران سے حساب بیباق کرنے کیلئے استعمال کر رہا ہے ۔ ایران کی علاقے میں بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے سعودی عرب پریشان ہے ۔ عام پاکستانی یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ دو برادر اسلامی ممالک کے درمیان لڑائی میں فریق بننا کہاں کی دانش مندی ہے ۔ اس وجہ سے پاکستان کی پارلیمان نے قرارداد کے ذریعے یمن کے تنازعہ میں فریق نہ بننے اور اسلامی اتحاد میں شمولیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
پہلے دن سے اس خدشے کا اظہار کیا جارہا ہے کہ سعودی عرب کی سربراہی میں قائم اتحاد واضح طور پر ایران مخالف اتحاد ہے ۔جو اسلام کا مقدس نام استعمال کرکے سعودی تنگ نظر مفادات کی ترویج کیلئے کام کرے گا۔اس وجہ سے بعض حلقے اس کو سنی اتحاد کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ یہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد ہے ۔ لیکن سعودی عرب سمیت اس میں کئی ایسے ممالک شامل ہیں جن پر دہشت گردوں کی حمایت اور امداد کے الزامات تواتر سے لگتے رہتے ہیں سب سے زیادہ الزامات تو خود سعودی عرب پر لگے ہیں ۔ شام ، عراق اور یمن میں باغیوں کی امداد اور داعش جیسے تنظیموں کی حمایت کے الزامات ہیں ۔ البتہ داعش وغیرہ کے ساتھ اس کے بعد میں کچھ اختلافات پیدا ہوگے۔
بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک سابق آرمی چیف کی اس اہم عہدے پر تقرری پاکستان کو چور دروازے سے اتحاد میں لانے کی ایک کوشش بھی ہوسکتی ہے ۔ کیونکہ تقرری کی خبروں کے ساتھ پاکستان سے سابق فوجیوں کی بھرتی کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں ۔ جبکہ ماضی میں بیرون ملک سعودی مفادات کی تحفظ کیلئے پاکستان سے سابق فوجیوں کی بھرتی کی مثالیں موجود ہیں۔
عوامی موڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت اور جنرل راحیل شریف کے قریبی حلقوں کی جانب سے ایسے اشارے بھی مل رہےہیں کہ شاید اب ان کا ذہن تبدیل ہوگیا ہے۔ دوسری طرف حکومتی ذرائع بھی مثلا وزیر دفاع اپنے موقف سے مکرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ سرکاری ذرائع کے مطابق ابھی تک جنرل راحیل شریف کی جانب سے جی ایچ کیو اور حکومت کو این او سی کیلئے باضابطہ درخواست نہیں ملی ۔
دریں اثنا سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے حکومت سے سابق آرمی چیف کی اسلامی فوجی اتحاد کی کمان سنبھالنے کی خبر پرجواب طلب کرلیا ہے۔ کہ اس اہم تقرری کے تناظر میں ریٹائرڈ ملازمین کے قواعد اور ضوابط کیا ہیں ؟ اگر کوئی این او سی جاری ہوا ہے تو کس نے جاری کیا ہے ؟ اور آیا اس معاملے پر حکومت کو اعتماد میں لیا گیا ہے یا نہیں ؟ ۔ اور وزارت خارجہ کو سابق آرمی چیف کا مجوزہ عہدہ قبول کرنے کے فیصلے کے خارجہ پالیسی اور پارلیمنٹ کی مشترکہ اجلاس میں حکومت کی موقف پر ممکنہ اثرات کا جا ئزہ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے ۔
یہ سطور لکھتے وقت سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ نظر سے گزری جس میں کسی من چلے نوجوان نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ راحیل شریف سے ریال شریف تک ۔ اب پتہ نہیں وہ نوجوان آزاد گھوم رہا ہوگا یا کسی عقوبت خانے میں سرکاری مہمان نوازی کے مزے لے رہا ہوگا ۔ مگر جو بھی ہے ۔ جنرل راحیل شریف سے ریال شریف تک کے سفر کو سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت ہے ، اور اس فیصلے تمام پہلو کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔
♦