بھارتی فلموں کی پاکستان میں ریلیز سے قبل ملک کی انٹیلی جنس ایجنسی اس بات کو یقینی بنائے گی کہ ان میں پاکستان مخالف کوئی پراپیگنڈا موجود نہ ہو۔ اس مقصد کے لیے یہ ایجنسی ان فلموں کا باقاعدہ طور پر جائزہ لے گی۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس اقدام سے جنوبی ایشیا کے ان دو ہمسایہ مگر روایتی مخالف ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کا اندازہ ہوتا ہے۔
پاکستان نے گزشتہ ماہ بھارتی فلموں کی پاکستانی سنیما گھروں میں ریلیز پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ پابندی گزشتہ برس کے اواخر میں بھارتی زیرانتظام کشمیر میں ایک بھارتی فوجی اڈے پر عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد عائد کی گئی تھی۔ اس حملے میں 19 بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے اور دونوں ممالک کے تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔
بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان سے آنے والے عسکریت پسندوں پر عائد کی تھی تاہم اسلام آباد حکومت کی طرف سے اس دعوے کو رد کیا گیا تھا۔
لیکن پابندی کے چند ماہ بعد ہی بھارتی فلمیں نہ دکھانے کے بلندو بانگ دعووں کو پس پشت ڈال کر سینما مالکان نے ایک بار پھر پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔تازہ اعلان کا مقصد اس پابندی کو ایک بار پھر لاگو کرنا ہے۔
وزیراعظم نواز شریف کے دفتر کے مطابق وزیراعظم نے ایک کمیٹی قائم کی تھی جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستانی سنیما گھروں میں بھارتی فلموں کی ریلیز کے لیے ایک باقاعدہ طریقہ کار وضع کرے۔
ڈی پی اے کے ذرائع کے مطابق اُس کمیٹی میں پاکستانی انٹیلیجنس ایجنسی آئی ایس آئی کا ایک اہلکار بھی موجودہ ہو گا جو ریلیز سے قبل ان فلموں کا جائزہ لے گی۔
پاکستانی سنیما بھارتی فلموں کی ریلیز سے قبل خود بھی ان فلموں کا جائزہ لیتے ہیں کہ ان میں پاکستان مخالف کوئی منظر یا ڈائیلاگ نہ ہو۔ 2015ء میں ’’فینٹم‘‘ نامی بھارتی فلم کو پاکستان میں ریلیز کی اجازت نہیں دی گئی تھی کیونکہ اس فلم میں دکھایا گیا تھا کہ بھارتی ایجنٹ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور اس جماعت کے سربراہ کو پکڑ کر لے جاتے ہیں جس پر بھارتی حکومت 2008ء میں ہونے والے ممبئی حملوں کی ذمہ داری عائد کرتی ہے۔
پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقت کے حامل ہیں اور 1947ء میں برطانیہ سے آزادی کے بعد سے یہ دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات صرف اور صرف عوام کو اچھی تفریح سے محروم رکھنا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے کیا پاکستان کے خلاف بیانات بند ہوجائیں گے؟ ۔یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک طرف ریاست دہشت گردوں کی سرپرستی کرے اور وہ ملک میں کھلے عام بھارت کے خلاف کاروائیوں کا اعلان کریں اور پھر ان کا ذکر فلموں میں بھی نہ ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ایسٹیبلشمنٹ کی جنگجویانہ پالیسیوں کی سزا پاکستانی عوام پچھلی کئی دہائیوں سے بھگت رہی ہے ۔پاکستان جہاں پہلے ہی تفریحی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں وہاں فلموں پر پابندی سے انتہا پسند رویے جنم لیتے ہیں۔اس طرح کی پابندیوں سے معاشرے میں کسی بہتری کی بجائے منافقانہ رویے جنم لیتے ہیں۔
DW/News
2 Comments