لیاقت علی
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی شخصیت کے حوالے سے ہمارے ہاں دو طرح کے نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں ۔ ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ جناح صوم صلوۃ کے پابند مذہبی اورتبلیغی رحجان کی حامل شخصیت تھے جن کے نزدیک پاکستان کا قیام’ الوہی مشن ‘کی تکمیل تھی۔ وہ پاکستان کو ’اسلامی اصولوں کی تجربہ گاہ ‘ بنا نا چاہتے تھے ۔
جناح کے بارے میں ایسا صرف ہماری مذہبی سیاسی جماعتوں ہی نہیں کہتیں ، ہماری ریاست کا بیا نیہ بھی کم و بیش اس سے ملتا جلتا ہے۔ اس بیانیہ کے مطابق جناح شخصی اور سیاسی غلطیوں اورکوتاہیوں سے پاک ایک ’ مکمل ‘ انسان تھے اور ان کی سیاسی حکمت عملی ہو یا پھر ان کے شخصی کردار کا کوئی پہلو، اس پر تنقید ’ گناہ کے زمرے ‘ میں آتی ہے ۔
دوسرا نکتہ نظر جو اقلیت میں ہے ،کے مطابق جناح جدید فکر و نظر کے حامل سیاست دان تھے جن کے نزدیک قیام پاکستان خدائی مشن کی بجائے ایک سیاسی پروگرام تھا جس کا مقصد ہندوستان کے مخصوص علاقوں میں بسنے والے مسلمانوں کے سیاسی ، معاشی اور سماجی حقوق کا تحفظ تھا۔
پس ماندہ معاشروں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے ہاں نظریات ، افکار اور خیالات سے زیادہ شخصیات پر زور دیا جاتا ہے اور انہیں اس قدر مقدس اور متبرک بنا دیا جاتا ہے کہ ان کا کہا ہوا ہر لفظ درست تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ جب کوئی شخصیت اس مقام پر فائز ہوجاتی ہے تو پھر اس کے نام سے منسوب کرکے یا اس کے بیانات اور خیالات کو مسخ کرکے سماجی اور سیاسی رہنما اپنے مقاصدحاصل کرتے ہیں۔
یہی صورت حال پاکستان میں جناح کی ہے کہ جنہیں دائیں اور بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے اپنے سیاسی اور نظر یاتی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں اور دونوں ان کی تقریروں اور بیانات سے اپنے مطلب کی باتیں ڈھونڈ رہے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ شخصیت سے علیحدہ ہو کر نظریات اور افکار کی بنیاد پر لوگوں کی ذہن کو بدلا جائے۔
’قائد اعظم کیا تھے اور کیا نہیں تھے ‘ اس چھوٹی سی کتاب کا عنوان ہے جو فکشن ہاوس لاہور نے شائع کی ہے ۔ اس کتاب میں تحریک پاکستان اور جناح کی سیاست اور شخصیت کے بارے میں اتھارٹی خیال سمجھے جانے والے ڈاکٹر صفدر محمود اور جناح اور ان کی سیاست کے بارے میں غیر روایتی نکتہ نظر کے حامل معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی کے ان مضامین کو جمع کیا گیا ہے جو انھوں نے ایک دوسرے کے جواب میں ایک دہائی قبل مختلف اخبارات میں لکھے تھے۔
جناح کی تاریخی شخصیت کو تبدیل کرکے انہیں مذہبی رنگ دینے کی تحریک قیام پاکستان کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی ۔ کچھ علما نے انھیں خلیفہ بننے کی تحریک دی اور کچھ نے اورنگ زیب ثانی کہنے پر اکتفا کیا۔ کچھ خوشامدیوں نے انھیں پاکستان کا باد شاہ بننے کا مشورہ دیا بھی تھا ۔ جناح نے ان لایعنی مشوروں اور تجویزوں کو کوئی اہمیت نہ دی اور ایک باختیا گورنر جنرل بننے کو تر جیح دی تھی۔
ان کی وفات کے بعد جناح کی شخصیت کی ٹیلرنگ کا دوسرا دور شروع ہوا جس میں انھیں صوم و صلوۃ کا پابند ثابت کیا جانے لگا تاکہ اس کی بنیاد پر پاکستان کو مذہبی ریاست بنانے کی راہ ہموار کی جاسکے۔ڈاکٹر صفدر محمود اور ان کے ہم خیال مورخ اورکالم نگار مسلسل اس کام میں مصروف ہیں ۔ مثلا ایک کہانی یہ مشہور کی گئی کہ ایک دن مولانا حسر ت موہانی جناح سے ملنے گئے تو وہ ڈرائنگ روم میں نہیں تھے اس لیے وہ ٹہلتے ہوئے ان کی خواب گاہ میں چلے گئے اور دیکھا کی جناح مصلے پر بیٹھے ہیں اور زارو قطار رو رہے ہیں۔
جناح کے عموی رویے کو پیش نظر رکھا جائے تو اس زیادہ بے بنیاد اور لغو کہانی اور ہو نہیں سکتی ۔ جنا ح اگر کسی کو ملنے کا وقت دیتے تھے تو وہ اس کی سختی سے پابندی کرتے تھے اور کسی کے لئے یہ ناممکن تھا کہ وہ منہ اٹھائے جناح کے بیڈ روم میں چلا جائے لیکن ڈاکٹر صفدر محمو د اور ان کے ہم خیال اس قسم کی بے بنیاد کہانیاں لکھ کر جناح کی شخصیت کو مسخ کر تے رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر صفدر محمود نے اپنے ایک مضمون میں قیام پاکستان کے حوالے سے مولانا حسین احمد مدنی کے ایک خواب کا ذکر کیا ہے۔ مولانا حسین احمد جمیعت علمائے ہند کے رہنما اور ایقان کی بنیاد پر علیحدہ ملک کے قیام کے مخالف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ قوموں کی تشکیل اوطان سے ہوتی ہے ایقان سے نہیں۔ اس مسئلے کو لے کر ان کے اور علامہ اقبال کے مابین ایک علمی مناظرہ بھی ہوا تھا ۔
لیکن قیام پاکستان کے بعد محبان مولانا مدنی نے ان کے مبینہ خواب کی بنیاد پر انھیں قیام پاکستان کا حامی ثا بت کر دیا ۔ خود مولانا مدنی قیام پاکستان کے بعد تقریبا دس سال تک حیات رہے تھے لیکن انھوں نے کبھی پاکستان کے قیام بارے میں اپنے کسی خواب یا کشف کا ذکر کسی سے نہیں کیا تھا لیکن ڈاکٹر صفدر محمود کو اپنی تحقیق کے ثقہ ہونے پر اصرار ہے۔
ڈاکٹر صفد ر محمود کے برعکس ڈاکٹر مبارک علی جناح کی شخصیت اور ان کی سیاست کا احاطہ خوابوں اور کرامات کی بجائے معروضی حالات کے تناظر میں لیتے ہیں۔ان کا موقف ہے کہ پاکستان کی تاریخ اور جناح کی شخصیت کو حقائق سے ہٹ کر روحانی بنیادوں پر تشکیل دیا جائے تو یہ ان کی حقیقی شخصیت کو مسخ کر دیتی ہے ۔ جناح کی شخصیت کا جس نے بھی بغورمطالعہ کیا ہے وہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ وہ ایک ایماندار،دیانت دار اور بحیثیت وکیل مکمل طور پر پروفیشنل تھے۔
وہ قطعی مذہبی انسان نہیں تھے۔یہاں تک کہ کھانے پینے میں بھی مذہبی پابندیوں کا خیال نہیں رکھتے تھے نہ ہی وہ روایتی معنوں میں عوامی رہنما تھے۔ہاں یہ ضرور ہے کہ سیاسی تقاضوں کے تحت انھوں نے مذہب کو استعمال کیا اور اپنی تقریروں میں مذہبی اصطلاحات اور سمبلز کو استعمال کیا لیکن ان کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ وہ پاکستان کو ایک مذہبی ریاست کے طور پر قا ئم کریں۔ ان کی شخصیت، ان کا کردار اور ان کے سیاسی و سماجی خیالات ان سے منسوب مذہبی ریاست کے قیام کے تصور کی نفی کرتے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی کی معروضیت کی تردید کرتے ہوئے ڈاکٹر صفدر محمود کہتے ہیں کہ پاکستان کسی الحادی نظریئے( ڈاکٹر صفدر سیکولرازم کو الحادی نظریہ سمجھتے ہیں ) کی بنا پر معرض وجود میں نہیں آیا اور نہ ہی محض الحادی نظریات اسے متحد رکھ سکتے ہیں ۔
بانی پاکستان کے خیالات اور شخصیت کے بارے میں یہ چھوٹی سی کتاب اس وسیع تر بحث کا حصہ ہے جو پاکستان کو روشن خیال اور جدید جمہوری
ریاست جس کے تمام شہریوں کو مساوی بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق حاصل ہوں اور پاکستان کی بنیاد پرست ریاست جو مذہبی عقیدے کی بنیاد پر اپنے شہریوں میں تفریق پر یقین رکھتی ہو ،کے داعیوں کے مابین میں جاری ہے ۔
♥