آپ کے والدِ محترم جناب پیئر اِلیٹ ٹروڈو ایک دوراندیش صاحبِ بصیرت اور مدبّرانہ شخصیت کے مالک تھے۔ پیئر اِلیٹ ٹروڈو کی قیادت نے 1971 میں کینیڈا میں ملٹی کلچرل ایکٹ پاس کرکے کثیر الثقافت معاشرے کی باقاعدہ بنیاد رکھی تھی۔ آپ کے والد محترم جناب پیئر اِلیٹ ٹروڈو نے معاشرتی تنوّع کو کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس قرار دیا تھا۔ پھر آگے آنے والے حاالات نے ثابت کیا کہ کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز اس عظیم اصول میں یعنی اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔
کینیڈا ایک عظیم ملک ہے، یہاں کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی کینیڈا کے آئین کے نفسِ ناطقہ یعنی پلورل ازم (اجتماعیت ) کی اصل روح ہے۔
مذہبی انتہا پسندی سے پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں۔ خود اسلامی ممالک بھی اِس انتہا پسندی کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ مسلمانوں کے مقاماتِ مقدّسہ مکّہ اور مدینہ بھی ان دہشت گردوں سے نہیں بچ سکے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کی آگ نے اب پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔
کینیڈا تو ایک لبرل، سیکولر ملک ہے۔ جو اپنے آئین و قانون میں دی جانے والی رعائتوں کے سبب آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے۔ انتہا پسند خیالات اور انتہا پسندی کے پیروکاروں کی کینیڈا میں کوئی کمی نہیں ہے۔ خود آپ کی اپنی پارٹی یعنی لبرل پارٹی آف کینیڈا میں بھی مذہبی انتہاپسندوں نے کمیونٹی لیڈروں کے روپ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کی کوئی جسامت یا شکل نہیں ہوتی۔ مذہبی انتہا پسندی ، انسانی دماغوں میں پنپتی ہوتی ہے، اور پھر جب یہ حد سے بڑھ جاتی ہے تو پھر یہ عملی دہشت گردی کی شکل میں معاشرے میں تباہ کاریاں پھیلاتی ہے۔ جس کا شکار مسلمان ممالک کے علاوہ بڑے پیمانے پر فرانس، جرمنی، برطانیہ اور امریکہ اور کینیڈا بھی ہورہے ہیں۔ دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں آئے دِن مذہبی انتہاپسندی کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ماضی میں کینیڈا میں بھی مذہبی انتہا پسندی کے نتیجے میں دہشت گردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک امریکہ کو بھی انتہا پسندی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دہشت گردی سے شدید نقصانات ہوئے ہیں، دہشت گردی کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لئے امریکہ کے نو منتخب صدر جناب ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف اٹھانے کے فوراً بعد ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط کئے ہیں ،جس کے تحت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسلمان ملکوں سے امریکا کا رخ کرنے والے تارکین وطن کے امریکا میں داخلے پر وسیع پیمانے پرپابندیاں عائد کردی ہیں۔
ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے اس حکم نامے کا مقصد امریکا میں دہشت گردوں کے داخلے کو روکنا ہے ۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے اس حکم نامے کے مطابق ایران، عراق ، سوڈان ، صومالیہ، لیبیا، شام اور یمن کے مسلمانوں کے پاس اگر امریکا کا ویزا ہوگا تو بھی امریکا پہنچنے پر انہیں ملک کے اندر داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ ان سات ملکوں کے مسلم شہریوں پر فی الحال نوّے روز تک اس پابندی کا اطلاق ہو گا اور اس حکم نامے کے مطابق امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کو پچاس فیصد تک کم کردیا جائے گا۔ اپنے صدارتی حکم نامے میں امریکی صدر نے امریکا میں تارکین وطن کے داخلے کے پروگرام کوبھی چار ماہ کے لیے معطل کر دیا ہے۔ اپنے قارئین کو بتاتے چلیں کہ ہفتہ کے روز امریکہ کے شہر نیویارک کی ایک عدالت نے صدر ٹرمپ کے اس حکم نامے پر عبوری طور پر عمل درآمد روک دیا ہے۔
جسٹن ٹروڈو صاحب ، امریکی صدر کے صدارتی حکم نامے پر دستخط کے تھوڑی دیر بعد آپ نے سوشل میڈیا پر ایک ٹوئیٹ کے ذریعے پوری دنیا کو ایک پیغام دیا ہے۔ آپ کے پیغام کے مطابق“جو لوگ کسی بھی قسم کے امتیازی سلوک اور ہراساں کئے جانے، جنگ یا دہشت گردی کے نتیجے میں دربدر ہیں، انہیں بغیر کسی مذہبی امتیاز کے کینیڈا میں خوش آمدید کہا جائے گا، تنوّع ہماری طاقت ہے“۔
سوشل میڈیا پر آپ کا یہ ٹوئیٹ کینیڈا کی عظیم روایات کی عکّاسی کرتا ہے۔ ایک عظیم ملک کے سربراہ اور بیباک لیڈر کی حیثیت سے آپ کا پیغام ، آپ کی جراءت مندی اور آپ کی قائدانہ صلاحیتوں کی ترجمانی کرتا ہے۔
مگر آپ تھوڑے سےجذباتی ہیں۔ آگ میں جلنے والوں کو آگ سے بچاتے وقت فائر فائٹرز بھی اپنی حفاظت اور سلامتی کا بندوبست پہلے کرتے ہیں، پھر آگ میں جلنے والوں کو بچاتےہیں۔ کیونکہ یہ فائر فائٹرز کی اخلاقی اور قانونی ذمّہ داری ہوتی ہے۔ مگر آپ نے کسی فائر فائٹر کو یکلخت آگ میں کودتے نہیں دیکھا ہوگا، تمام فائر فائٹرز آگ میں کودنے سے قبل ہر ممکن حفاظتی تدابیر پہلے اختیار کرتے ہیں اور پھر آگ بجھانے کے لئے ، آگ میں کودتے ہیں۔ ۔ آپ بھی پوری دنیا میں اسلامی انتہا پسندی کی وجہ سے لگی ، دہشت گردی کی آگ کو بجھانے والے فائر فائٹر ہیں، آگ بجھانے کے لئے آگ میں ضرور کُودیں، آگ کو ضرور بجھائیں، مگر اپنی اور کینیڈا کی حفاظت کا بندوبست بھی ضرور کرلیں۔ کہیں ایسا نہ ہو آگ بجھاتے بجھاتے دامن کو ہی آگ لگ جائے۔ ویسے بھی آگ جذبات سے نہیں پانی سے بجھائی جاتی ہے۔ بس یہی آپ کو بتانا تھا۔ وما علینا الالبلاغ،
آصف جاوید، سوشل اینڈ ہیومن رائٹس ایکٹیوسٹ، ٹورونٹو، کینیڈا