لیاقت علی
سارک لا 28جنوری 2017کو کراچی میں ’ نسیم حسن شاہ میموریل لیکچر‘ کا اہتمام کر رہا ہے۔سارک لا جنوب ایشائی تعاون تنظیم سارک کے وکلا ، ججز اور قانون کے پیشے سے تعلق رکھنے والے افراد کی تنظیم ہے ۔ اس تنظیم کے موجود صدر محمود مانڈوی کا تعلق پاکستان سے ہے اور وہ معروف لا فرم ظفر(ایس۔ایم۔ظفر) لا ایسوی ایٹس کے پارٹنر ہیں ۔ اس یادگاری لیکچر کے مہمان خصوصی عزت ماب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان مسٹر جسٹس ثاقب نثار ہوں گے۔ پاکستان کے بارہویں چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان جسٹس نسیم حسن شاہ کی ’خدمات ‘ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے حوالے سے منعقد ہونے والا یہ لیکچر امسال بھارت کی سپریم کورٹ کے سنیئر وکیل وینو گوپال دیں گے اور لیکچر کا عنوان ہے ’غربت: انسانی حقوق کی سنگین خلف ورزی‘۔
میموریل لیکچر ز کا مقصد کسی ایسی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنا ہوتا ہے جس نے سماجی زندگی کے کسی مخصوص شعبے میں انسانیت کو خدمت کی ہو اور اس کے کام کی بدولت اس شعبے نے نئی بلندیوں کو چھوا ہو ۔کسی متنازعہ شخصیت کے حوالے سے میموریل لیکچر کا انعقاد مزید نظری اور فکری الجھاؤ اور پیچیدگیوں کا باعث بنتے ہیں ۔
جسٹس نسیم حسن شاہ پاکستان کی جوڈیشل تاریخ میں متنازعہ کردار کے حامل ہیں ۔ وہ شخصی طور پر بہت اچھے شخص ہوسکتے ہیں لیکن جس شعبے سے ان کا تعلق تھا وہاں ان کی کارکردگی قابل ستائش نہیں رہی ۔ انھوں نے بطور جج منتازعہ فیصلے دیئے اور ان کے بعض فیصلے تو ایسے تھے جنھیں پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کے سیاہ ترین فیصلے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
جسٹس نسیم حسن شاہ اپریل 1929میں پیدا ہوئے ان کے والد سید محب شاہ پیشے کے اعتبار سے وکیل اور سیاسی طور پر مسلم لیگ سے وابستہ تھے ۔ وہ طویل عرصے تک انجمن حمایت اسلام کے صدر رہے۔ گورنمنٹ کالج سے ماسٹرز اور یونیورسٹی لا کالج سے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد انھوں نے پیرس یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کرکے لاہور سے اپنی وکالت کا آغاز کیا۔
وکالت کے ابتدائی سالوں میں جسٹس شاہ جس کیس کی پیروی کرنے عدالت میں پیش ہوئے وہ پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کا کیس تھا ۔گورنر جنرل غلام محمد نے جب پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی کو یک قلم تحلیل کیا تو اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین نے اس فیصلے عدالت میں چیلنج کر دیا ۔ نسیم حسن شاہ گورنر جنرل کی لیگل ٹیم کا حصہ تھے جو گورنر جنرل کے غیر جمہوری فیصلے کے دفاع کے لئے تشکیل دی گئی تھی۔
نسیم حسن شاہ کو 39سال کی عمر میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کا جج بنا دیا گیا ۔ ان کی یہ ترقی پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب کی نظر کرم کا نتیجہ تھی۔ان دنوں اعلی عدلیہ میں تعنیانی ایوان اقتدار سے تعلق کے بغیر ممکن نہیں تھی ۔ جب جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1969 میں مارشل لا مسلط کیا تو جسٹس شاہ لیگل فریم ورک آرڈر کا حلف لے کر لاہور ہائی کورٹ کا حصہ بن گئے ۔جن دنوں بھٹو کے خلاف قومی اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی اس دوران مئی 1977 میں بھٹو نے جسٹس نسیم حسن شاہ کو سپریم کورٹ کا ایڈہاک جج مقرر کر دیا ۔
جولائی 1977 میں چیف آف دی آرمی اسٹاف جنرل ضیا ء الحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کر دیا جسٹس شاہ ان ججو ں میں شامل تھے جنھوں نے پی سی او کا حلف لیا تھا ۔ جب بیگم بھٹو نے ضیا ء الحق کے مارشل لا کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو ان کی اس پٹیشن کی سماعت کرنے والے بنچ میں جسٹس نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے اور انھوں نے جنرل ضیا ء الحق کے مارشل لا کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا تھا ۔
بعد ازاں جب بھٹو نے لاہور کورٹ سے ملنے والی پھانسی کی سزا کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو جسٹس نسیم حسن شاہ سپریم کورٹ کے اس بنچ کا بھی حصہ تھے جس نے بھٹو کی اس اپیل کا فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس شاہ ان چار ججوں میں شامل تھے جنھوں نے بھٹو کی پھانسی کی سزا کو بحال رکھا تھا اور ان کی اپیل مسترد کر دی تھی۔ بعد ازاں جسٹس شاہ نے اپنے انٹرویوز میں یہ اقرار کیا کہ بھٹو کو پھانسی کی سزا دینا غلط تھا اور اس سزا کا قانونی جواز بہت کمزور تھا ۔ جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ آپ نے اس فیصلے سے اتفاق کیوں کیا تھا تو ان کا جواب تھا کہ ’ فوجیوں کے ہاتھ میں بندوقیں تھیں اور ہمیں اپنی نوکر ی بچانی تھی ‘۔
جسٹس شاہ کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس اپریل1993 میں صدر غلام اسحاق خاں نے وزیر اعظم نواز شریف کے مشورے سے لگایا تھا۔ جب غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے مابین اختلافات پیدا ہوئے اورغلام اسحاق نے نواز شریف حکومت کو برطرف کردیاتو نواز شریف اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئے جہاں چیف جسٹس شاہ نے صدر غلام اسحاق خان کے حکومت برطرف کرنے کو فیصلے کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے ان کی حکومت کو بحال کردیا ۔اپریل 1994میں 65سال کی عمر میں وہ ریٹائر ہوگئے ۔ وہ سب سے طویل عرصہ تک جج رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد حکومت نے انھیں کرکٹ بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا تھا ۔
جسٹس شاہ متنازعہ فیصلوں کی بنا پر ایسی شخصیت نہیں ہیں کہ ان کے نام پر کسی میموریل لیکچر کا اہتمام کیا جائے۔ اور اگر ایسا کرنا ضروری ہے تو ان کے ان فیصلوں پر بات ہونا چاہیے جن کی بدولت پاکستان کی عدلیہ پر عوام کا اعتماد پر کم زور ہوا اور پاکستان کے جمہوری نظام کو شدید دھچکا لگا۔یہ لیکچر ایک غلط روایت کا آغاز ہے جس سے پاکستان کی عدالتی تاریخ مزید متنازعہ ہو گی ۔
♦