زرتشت کی کوئی نہیں سنتا‎

جنیدالدین

میں نے چار سال اس لائبریرین کے متعلق اتنا سوچا کہ مجھے الزائمر ہو گیا۔ اب مجھے پتہ نہیں چلتا کہ خود کون ہوں۔ میرے اندر وہ الفاظ جنہیں دہرانے پر کسی کی قابلیت کا پتہ چلتا ہے مٹ چکے ہیں اور اگر تمہیں محسوس ہو کہ میں کچھ بھولنے لگا ہوں تو مجھے یاد کرا دینا کہ میں کون ہوں اور میں جو کہتا گیا اس کا سننا ہر گز مدعا نہیں تھا۔

مارکیز کا ارلیانو میرا دوست تھا۔ کیا پوچھا کب تھا۔ وہ ماکونڈو جانے سے پہلے میرا دوست تھا۔ ہم اکٹھےکھیلتے تھے۔ پھر ایک دن اس کے دماغ میں جادو سیکھنے کی ایسی سمائی کہ وہ خانہ بدوشوں کیساتھ مل گیا۔

کہتے ہیں کچھ عقلمندوں کو اس کا پاگل پن ایسا بھایا کہ انہوں نے خدا سے دعا کی کہ انہیں بھی ایسا بنا دے۔ خدا نے کہا کیا تم نے خلیل جبران کے بارے کچھ سنا ہے۔ ان سب نے اثبات میں سر ہلایا کہ وہ اسے جانتے تھے۔

یہ سنتے ہی خدا غصہ میں آگیا کہ اگر تم اسکو جانتے ہو تو پاگل پن کی دعا لا حاصل ہے کہ پاگل پن چہرے سے فقط خول اتارنے کا نام ہے۔

ان عقلمندوں نے یا شاطروں نے خدا سے معافی چاہی اور اس کا شکر ادا کیا کہ وہ جیسے ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں، حالانکہ خدا جانتا تھا وہ کس دل سے ایسا کہہ رہے ہیں۔

مجھے لگتا ہے میں بھی ارلیانو بن چکا ہوں۔ ارلیانو میرا دوست تھا۔ گو کہ اس سے بچھڑنے کے بعد میں نے دوستوئفسکی کے پرنس مشیکن جسے تم سب ایڈیٹ کہتے ہو، کے ساتھ دوستی کر لی۔  پھر ایک اور پاگل کا ذکر آگیا۔ ہاں مشیکن واقعی پاگل تھا، لیکن میں نے اسے میرا پیر مان لیا۔

ہماری دوستی شمس و رومی کی مانند تھی۔  کیا مجھ میں اور اس میں کچھ فرق ہے۔ مجھے تو نہیں لگتا اگر وہ مجھے دیکھے تو اسے لگے گا کہ وہ خود کو ہی دیکھ رہا ہے۔ مگر میرے زیادہ بولنے کی وجہ سے وہ جان لے گا کہ نہیں یہ میں نہیں۔

بالآخر جب ایڈیٹ واپس سوئٹزرلینڈ چلا گیا تو میں نے اپنے مالک سے گزارش کی کہ میری بھی سفارش کر دو،کوئی مجھے بھی ساتھ رکھ لے۔ لیکن یہ اتنی بڑی بات تھی کہ کوئی بھی اسے ماننے کو تیار نہ ہوا۔ بالآخر انہوں نے مجھے یہاں بھیج دیا۔ اور میں چار سال سے مسلسل اس لائبریرین کے بارے میں سوچ رہا ہوں جس نے ان گھٹیا رومانوی ناولوں کو اپنے سامنے والے کاؤنٹر پر سجا لیا اور مجھے دوسری منزل کے نکڑ والے اس ریک میں رکھ دیا جہاں تمہارے سوا کوئی نہیں آتا۔ تم نطشے کو بتانا کہ زرتشت تنہا ہو چکا ہے کوئی اسکی نہیں سنتا۔

Comments are closed.