پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں فلاح انسانیت فاؤنڈیشن اور جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کو جوہر ٹاؤن میں واقع ان کے گھر میں نظر بند کر دیا گیا ہے۔حافظ سعید کو جماعت الدعوۃ کے چوبرجی میں واقع مرکزی دفتر جامعہ قادسیہ سے پیر کی رات تحویل میں لیا گیا تھا۔
بی بی سی کے نامہ نگار عمر دراز کے مطابق حافظ سعید نے نظری بندی کا نوٹیفکیشن موصول ہونے کے بعد اس بات پر اصرار کیا کہ انھیں میڈیا سے گفتگو کی اجازت دی جائے۔بعد ازاں انھوں نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ انھیں بیرونی ممالک کے دباؤ کی وجہ سے نظر بند کیا جا رہا ہے۔
پولیس کی بھاری نفری کی موجودگی میں حافظ سعید کو جامعہ قادسیہ سے جوہر ٹاؤن میں ان کی رہائش گاہ پر نظر بند کرنے کے لیے منتقل کیا گیا۔ اس موقع پر ان کی جماعت کے اراکین کی جانب سے اس اقدام کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔
حافظ سعید نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ ’اگر ہمارے دشمن عناصر یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح ہم تحریک کشمیر کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائیں گے تو ایسا نہیں ہوگا‘۔
بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کے مطابق صوبہ پنجاب کے وزاتِ داخلہ حکام کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق فلاح انسانیت اور جماعت الدعوۃ کو واچ لسٹ میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تنظیم کے پانچ رہنماؤں حافظ سعید، عبداللہ عبید، ظفر اقبال، عبدالرحمن عابد اور قاضی کاشف نیاز کو اے ٹی اے 1997 کے سیکشن 11 ای ای ای کے تحت حفاظتی تحویل میں لینے کا حکم بھی جاری ہوا تھا۔
نوٹیفکیشن کے مطابق جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت کو سکینڈ شیڈول میں شامل کیا گیا ہے۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکہ اور اقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم جماعت الدعوۃ کے خلاف اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں اقدامات کیے جا رہے ہیں۔
صحافیوں سے گفتگو کے دوران جب ان سے پاکستان میں جماعت الدعوۃ پر پابندی کے حوالے سے زیرِ گردش خبروں کے بارے میں دریافت کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ‘اس حوالے سے کل (منگل) تک تمام صورتحال واضح ہوجائے گی۔‘
چوہدری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ ‘یہ جماعت سنہ 2010/11 سے زیرِ نگرانی ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں بھی لسٹڈ ہے‘۔
ان کے مطابق ’لسٹنگ کے بعد کسی بھی ریاست کو کچھ اقدام کرنا ہوتے ہیں اور وہ نہیں ہو پائے تھے تاہم اب کچھ اقدامات کیے جا رہے ہیں۔‘
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے نومبر 2008 میں بھارتی شہر ممبئی میں ہونے والے حملوں کے بعد جماعت الدعوۃ پر پابندیاں لگائی تھیں اور اسے دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔ ممبئی حملوں میں 174 افراد ہلاک ہو ئے تھے ۔
سنہ 2014 میں امریکہ نے بھی جماعت الدعوۃ کو دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے مالیاتی پابندیاں عائد کی تھیں۔ امریکی حکام کی جانب سے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔
پاکستان کے دفترِ خارجہ نے جنوری 2015 میں اعلان کیا تھا کہ جماعت الدعوۃ سمیت ان تمام دہشت گرد تنظیموں کے اثاثوں کو منجمد کیا جا چکا ہے جن پر اقوامِ متحدہ نے پابندی لگائی ہوئی ہے۔
اس وقت جماعت الدعوۃ پاکستان کے ترجمان محمد یحییٰ مجاہد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکی دباؤ پر بھارت کو خوش کرنے کے لیے جماعت الدعوۃ کے خلاف ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ پابندی کتنے ماہ تک رہتی ہے کیونکہ جب تک ریاست حافظ سعید اینڈ کمپنی اپنا سٹرٹیجک اثاثہ سمجھے گی یہ پابندی نمائشی ہی رہے گی۔ ماضی میں بھی جب بین الاقوامی دباؤ بڑھا تو ان پر پابندی لگائی گئی تھی۔ لیکن چند ماہ بعد یہ آزادانہ گھومنا شروع ہو جاتے ہیں اور کشمیر اور بھارت میں نہ صرف جہاد کی تبلیغ کرتے ہیں بلکہ دہشت گردی کی کاروائیوں میں بھی ملوث ہوتے ہیں۔
BBC/News desk