پاک۔افغان تعلقات : بہتری اور خرابی کے اشارے 

 ایمل خٹک

مسئلہ افغانستان کے حوالے سے علاقے میں کھلم کھلا اور پردے کے پیچھے کئی سفارتی سرگرمیاں جاری ہیں ۔  ایک طرف افغان امن مذاکرات کے حوالے سے بیک ڈور ڈپلومیسی جاری ہے اور بہت سے دوست ممالک پاکستان اور افغانستان کے مابین رابطوں کی بحالی کیلئے کوشاں ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان سیاسی اور فوجی سطح پر رابطوں میں پیش رفت ہوئی ہے۔ عنقریب اعلی سطحی وفود کا تبادلہ متوقع ہے۔  مگر دوسری طرف تعلقات میں بہتری کے حوالے سے متضاد اور مکس اسگنلز مل ر ہے ہیں۔ 

 ایک طرف افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معطل امن مذاکرات کی بحالی کیلئے اندرونی اور بیرونی دباؤ بڑھ رہا ہے اور قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے درمیان امن بات چیت  کے بعد اب مذاکرات کی نئے راؤنڈ کی باتیں بھی ہو رہی ہے ۔  مگر دوسری طرف طالبان کی جانب سے موسم بہار میں فوجی سرگرمیاں تیز کرنے اور کسی سٹرٹیجک اہمیت کے حامل شہر پر قندوز کی طرح قبضہ کرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔  اس طرح طالبان کے چین، روس اور ایران کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ 

ایک طرف  نئے سال کی آمد پر پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر باجوہ کا افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو فون پر نئے سال کی مبارکباد اور افغان حکومت کی جانب سےان کو دورہ کابل کی دعوت ایک اہم  پیشرفت تھی۔  اور نئے آرمی چیف کے آنے کے بعد پالیسی میں تبدیلی کے اشارے بھی مل رہے ہیں ۔ مگر دوسری طرف دونوں ممالک کے درمیان الفاظ کی جنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ الزامات اور جوابی الزامات کا سلسلہ تھوڑا کم ضرور ہوا تھا مگرافغانستان میں حالیہ حملوں کے بعد دوبارہ شروع ہوگیا۔ حتی کہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے با ہر احتجاجی مظا ہرہ ہوا ہے اور پتھر بھی برسائے گئے ہیں۔  

سیاسی اور فوجی سطح پر اعلی سطحی رابطے ایک نیک شگون ہے ۔یہ رابطے ایسے وقت ہو رہے ہیں کہ ایک طرف پاک۔افغان تعلقات میں تناؤ اور بد اعتمادی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے تو دوسری طرف دونوں ممالک کے پالیسی سازوں کو جاری کشیدگی اور تناؤ کے مضر اثرات کا احساس بڑھ رہا ہے۔ دونوں طرف تعلقات میں بہتری کی خواہش موجود ہے۔

علاقے میں جاری سٹرٹیجک گیمز میں پاکستانی پالیسی سازوں نے افغان ردعمل کا شاید غلط اندازہ لگایا تھا۔ پاکستان کی جانب سے افغان امن مذاکرات میں وعدوں کے برعکس خاطرخواہ کردار ادا نہ کرنے کی وجہ سے افغان عوام نے سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ اور پاکستانی پالیسیوں سازوں پر ان کا جو تھوڑا بہت بھروسہ تھا وہ بھی ختم ہوگیا۔ اب افغانستان میں پاکستان کیلئے خیرسگالی کے جذبات نہ ہونے کے برابر ہیں۔  

افغان عوام اب ٹھوس اقدامات اور نتائج میں دلچسپی رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی جانب سے حالیہ پانچ سو ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد پر ڈاکٹر اشرف غنی کا بیان تو بعد میں آیا مگر افغان عوام کا ردعمل اسی وقت آیا تھا جب یہ اعلان ہوا تھا ۔ انکا موقف یہ تھا کہ ہمیں امداد دینے کی بجائے پاکستان افغان سرزمین پر دھشت گردی پھیلانے والوں کی امداد اور حمایت بند کردے ۔ ان کے نزدیک دوستی کا پیمانہ یہ ہے کہ آیا افغانستان میں تشدد میں کمی آئی کہ نہیں اور آیا پاکستان کی جانب سے ان کے مخالفین کو پناہ گاہیں اور امداد بند کردی گئی ہے یا جاری ہے۔  اگر تشدد میں کمی نہیں آئی اور ان کے مخالفین پاکستانی سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں ۔ تو اعلیٰ سطحی دوروں اور ملاقاتوں سے بات بڑھےگی نہیں بلکہ مزید بگڑ ے گی۔ 

  افغا ن ذرائع کے مطابق افغان حکومت نے پاکستان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا مگر مایوسی کے بعد مجبورا انڈیا کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا پڑا ۔ ان کے بقول اس وجہ سے امرتسر میں چند ھفتے قبل ہونے والی استنبول پراسس کے اجلاس میں وزیراعظم مودی کی نسبت اشرف غنی کا لہجہ زیادہ سخت تھا ۔  لیکن اس کے باوجود افغان حکومت نے بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے ۔ اور بیک چینل رابطوں کا سلسلہ بند نہیں ہوا ۔ مگر شاید اب وہ علامتی باتوں سے زیادہ سنجیدہ اور نتیجہ خیز بات چیت میں دلچسپی رکھتے ہیں اس لئے غیر ضروری میل ملاپ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 

جہاں تک تیسری قوت کا حالات سے فائدہ اٹھانے کا سوال ہے یقیناً وہ اٹھائیگا بھی مگر یہ سوال تو اس وقت پیدا ہو جاتا ہے جب دوسری قوت خاموش بیٹھی ہو۔  طالبان نے پہلے سے فوجی سرگرمیاں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے  ۔ آرمی چیف کے افغان قیادت سے ٹیلی فونی رابطے کے دس دن کے بعد یکے بعد دیگرے تین افغان شہروں میں دہشت گردی کے واقعات اور طالبان کی جانب سے دو شہروں میں حملوں کی ذمہ داری قبول کرنا یقیناً تیسر ے ہاتھ سے زیادہ یہ کسی اور کی کارستانی لگتی ہے۔ اس سے یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ کون دونوں ممالک کے بیچ تعلقات کی بہتری کی راہ میں حائل ہیں ۔

 افغانستان پر دو طرح سے دباؤ  یعنی سیاسی اور فوجی دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ طالبان کی فوجی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے اور مسئلہ افغانستان کے حوالے سے چین، روس اور پاکستان کی سہ فریقی اجلاس میں افغانستان کو دعوت ہی نہیں دی گی۔اس دباؤ کا کوئی اثر ہوا ہے یا نہیں مگر افغان عوام کے غم و غصے میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔  افغان طالبان کی جانب سے فوجی سرگرمیوں میں اضافے کے کئی مقاصد ہیں ۔

 ایک تو طالبان افغان حکومت پر دباؤ بڑھانا چاہتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ سٹرٹیجک فائدے اور مراعات حاصل کرسکیں ۔ اور اپنی فوجی موجودگی کا احساس دلا کر اپنی سودابازی کی قوت مضبوط کی جاسکے۔ سفارتی محاذ پر چین، روس اور پاکستان کی حالیہ سہ فریقی اجلاس سے طالبان کا مورال بلند ہوا ہے اور وہ اسے سیاسی فتح قرار رہے ہیں۔

دوسرا۔ فوجی سرگرمیوں میں اضافے سے طالبان  نئی امریکی حکومت پر بھی دباؤ ڈالنا  چاہتی ہے تاکہ وہ اپنی فوجی موجودگی برقرار یا بڑھانے سے باز رہیں۔ حال ہی میں کابل ، ھلمند اور قندھار میں ایک روز میں بیک وقت دہشت گرد حملوں سے طالبان نے اپنی فوجی قوت کا مظاہرہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئی امریکی انتظامیہ کو پیغام دینے کی کوشش بھی کی ہے کہ وہ نئے فوجی آپریشنز اور فوجوں کی تعیناتی سے باز رہے۔ طالبان نے دھمکی دی ہے کہ اگر نامزد امریکی انتظامیہ نے صدر براک اوبامہ کی پالیسیاں جاری رکھی تو اس سے زیادہ خطرناک حملے ہوسکتے ہیں۔ طالبان کی دھمکی کے باوجود امریکی حکام نے موسم بہار میں ھلمند تازہ دم دستے بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ 

تیسرا. حزب اسلامی افغانستان کی افغان حکومت سے مصالحتی کوششوں کے بعد افغانستان میں امن مذاکرات اور قومی مصالحت کی کوششوں سے عوام میں خوف اور بد امنی کا تاثر زائل ہونا شروع ہوگیا تھا ۔ اور امن اور استحکام کا تاثر ابھرنے لگا تھا اور طالبان پر بھی مذاکرات کیلئے اندرونی پریشر بڑھا تھا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے فوجی سرگرمیوں میں تیزی لائی گی۔ تاکہ یہ ثابت کیا جاسکے کہ وہ تنازعہ کی اہم قوت ہے اور اس سے معاملات طے کئے بغیر بات آگے نہیں بڑھے گی۔ 

بنیادی نقص پالیسی اور اس کی بنیاد پر بننے والے رویوں میں ہے ۔ خالی خولی بیانات اور ایفا نہ ہونے والوں وعدوں سے معاملات سنبھلیں گے نہیں بلکہ مزید خراب ہونگے ۔ افغان عوام اب وزیراعظم میاں نواز شریف یا آرمی چیف کے رابطوں یا بیانات یا دوروں سے خوش نہیں ہوتے بلکہ اس کا برا مانتے ہیں اور مذاق اڑاتے ہیں ۔ اگر دوروں اور ملاقاتوں سے معاملات میں بہتری آتی ہو تو جنرل (ر) راحیل شریف کے دور میں پاکستان کے آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے دو سال کے مختصر عرصے میں افغانستان کے اتنے دورے کیے کہ اتنے پینسٹھ سالوں میں بھی نہیں ہوئے تھے۔ اس طرح سابق افغان صدر حامد کرزئی کے دور میں انہوں نے پاکستان کے تقریباً بائیس دورے کیے تھے۔ 

پاک۔افغان تعلقات میں موجودہ تناؤ اور بد اعتمادی کی فضا میں جہاں افغان عوام میں پاکستان دشمنی کے جذبات ریکارڈ سطح کو چھو رہے ہیں کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اور ضروری ہوم ورک اور تمام متعلقہ اداروں میں ذھنی یکسوئی اور افغان پالیسی پر اتفاق رائے ضروری ہے ورنہ ماضی کی طرح ایک ادارہ امن کی بات کر ے گا دوسرا امن کو سبوتارژ کرنے کیلئے پراکسیز کو متحرک کرےگا۔ افغانستان میں حالیہ حملوں کو دیکھ کر لگتا یہ ہے کہ ابھی تک افغان پالیسی کے حوالے سے مختلف ریاستی اداروں میں ذہنی ہم آہنگی کا فقدان ہے۔  

 یہ بھی درست ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی لیکن اگر پاکستانی پالیسی سازوں کے پاس ڈیلیور کرنے کیلئے کچھ نہیں تو یہ رابطے فائدے کی بجائے نقصان کا باعث بنیں گے ۔ افغان عوام کے صبر اور برداشت جواب دے چکا ہے اور وہ لالی پاپ سے زیادہ ٹھوس نتائج میں دلچسپی ر کھتے ہیں ۔  دونوں ممالک کو کشیدگی اور تناؤ کی منفی اثرات اور دوستی کے ثمرات کا بخوبی اندازہ ہوچکا ہے مگر بد اعتمادی اور شکوک کی فضا ختم کرنے کیلئے ٹھوس اور سنجیدہ اقدامات کی کمی ہے ۔ اور کوئی بھی خود پہل کرنے کی بجائے دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں ۔

♦ 

Comments are closed.